• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ میں کرپشن کے حوالے سے ملکی تاریخ کے اہم ترین مقدمے پانامہ کیس کی سماعت مکمل ہوگئی ہے، تادم تحریر آخری اطلاع یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اب تفصیلی فیصلہ دے گی۔ سماعت کے دوران فریقین نے اپنے اپنے موقف کی حمایت میں جو دلائل شواہد اور ثبوت پیش کئے انہوں نے کیس میں دلچسپی رکھنے والوں کے ذہنوں کو الجھا کر رکھ دیا ہے خود عدالت کے پانچ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور دوسرے فاضل ارکان نے بدھ کوجو ریمارکس دیئے وہ بھی اس الجھائو کے غمازہیں نیب کے چیئرمین نے عدالت میں جو بیان دیا اس کے بارے میں جسٹس کھوسہ کے ریمارکس ہیں کہ نیب وزیراعظم کے لئے انشورنس پالیسی تھا وہ ہمارے سامنے وفات پا چکا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے کوئی تعاون نہیں کر رہا معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں الزامات کو کہاں پھینکیں؟ ہر وکیل الگ الگ بات کر کے کنفیوژ کر دیتا ہے عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں کے ریمارکس سے واضح ہو رہا ہے کہ فریقین کے وکلا نے اپنے موکلوں کے حق میں اور فریق مخالف کے خلاف کتنی جامع دستاویزات اور کتنے ٹھوس ثبوت پیش کئے! یہ بات عام آدمی بھی جانتا ہے کہ عدالتیں فیصلہ کرتے وقت قانونی نکات پیش نظر رکھتی ہیں جبکہ عام تاثر یہ ہے کہ پانامہ کیس پر عدالت میں قانونی سے زیادہ سیاسی لڑائی لڑی گئی اس کے مظاہر ہر سماعت کے بعد عدالت کے باہر فریقین کے یک طرفہ بلند بانگ دعوئوں کی صورت میں دیکھے گئے ۔ایک فریق کہتا ہے کہ عدالت ہمارے حق میں فیصلہ دے رہی ہے دوسرا فریق کہتا ہے کہ عدالت وزیراعظم کی بے گناہی پر مہر ثبت کر دے گی۔ بہتر ہوتا کہ اتنے اہم مقدمے میں دونوں فریق تحقیق و تفتیش کی بنیاد پر اپنے اپنے موقف کی حقانیت ثابت کرتے اور ادارے سپریم کورٹ میں سچ اور صرف سچ سامنے لاتے اس سے عدالت کا وقت بھی بچتا اور قیاس آرائیوں کا دروازہ بھی نہ کھلتا تا ہم اچھی بات یہ ہے کہ پیش کئے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی دونوں فریق اسے خوش دلی سے قبول کریں گے۔

.
تازہ ترین