• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دل بہت اداس تھا۔ دہشت گردی کے پے درپے واقعات سے پورا ماحول سوگوار تھا اور ٹی وی اسکرین پر انسانی گوشت کے لوتھڑے اور کٹے ہوئے اعضا کے ہولناک مناظر دیکھے نہ جاتے تھے۔ مختلف نوعیت کی وارداتوں سے اندازہ ہوا کہ اس بار دہشت گردوں کے ہدف مزارات کے علاوہ پولیس فورس، جج صاحبان اور فوجی دستے ہیں۔ اس بار بھی غلغلہ بلند ہوا کہ مجرم بہت جلد انصاف کے کٹہرے میں لائے جائیں گے اور وہ عبرت ناک انجام سے بچ نہیں سکیں گے اور سفاک آپریشن کے ذریعے انہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کے لب و لہجے سے غصے اور طیش کے آثار ہویدا تھے اور چشمِ زدن میں سینکڑوں دہشت گرد موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے اور پاکستانی توپ خانہ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر گولے برسانے لگا۔ اِس برق رفتار کارروائی کے نتائج پر غور کرتے ہوئے میرا دل دھک دھک کرنے لگا تھا اور اپنی تاریخ کے تناظر میں خوف کی ایک لہر ریڑھ کی ہڈی میں اُترتی جا رہی تھی۔
میں نے حالتِ اضطرار میں اپنے ایک دوست کو فون کیا جو ایک روحانی شخصیت بھی ہیں۔ پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ کہنے لگے حالات خاصے دگرگوں ہیں کیونکہ ہم چاروں طرف سے دشمنوں میں گھِرے ہوئے ہیں۔ بھارت ہمارا روزِ اوّل ہی سے دشمن چلا آ رہا ہے اور ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتا رہتا ہے۔ اب اس نے افغانستان میں بھی پاکستان کے خلاف اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ بدقسمتی سے برادر عرب ملک جو ہمارا ایک قابلِ اعتماد بھائی اور ایک بہت بڑا محسن تھا، وہ بھی خفا خفا نظر آتا ہے۔ ایران کے تیور بھی کچھ خوش نظر نہیں جبکہ امریکہ سی پیک کے عظیم اور پورے خطے کی تقدیر بدلنے والے منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے افغانستان میں ہونے والی خانہ جنگی اور دہشت گردی شمال مشرق کی طرف لے آنا چاہتا ہے جو پاکستان کی سرحد سے متصل ہے۔ اس کا ٹارگٹ ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد غیر محفوظ رہے اور بھارت کو بھی مشرقی سرحد پر دباؤ بڑھانے کا پورا موقع ملتا رہے۔
میں سانس روکے اپنے دوست کی باتیں سنتا رہا۔ ان کی گفتگو میں ٹھیراؤ آیا، تو میں نے بے ساختگی میں کہا کہ ہم بھی تو اپنے دشمن ہیں اور دوراندیشی، بردباری اور اعلیٰ ظرفی سے کام لینے کے بجائے اندیشوں، مبالغوں اور کج فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔معروضی حالات میں دشمن طاقتیں اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہو گئی ہیں جو وہ عالمی اور اپنے مفادات کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دشمنی کی ایک ناقابلِ عبور خلیج حائل کر دینا چاہتی ہیں۔ یہ دونوں ملک تاریخ، مذہب اور ثقافت کے نہایت گہرے رشتوں میں منسلک ہیں۔ انہوں نے صرف تین چار عشروں پہلے دنیا کی طاقت ور سپر پاور کے خلاف عظیم فتوحات حاصل کی تھیں اور اپنی بے مثال جرأت و شجاعت اور اخوت و محبت کا مظاہرہ کیا تھا۔ چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان کی سرزمین پر سالہا سال آباد رہے جن کے بارے میں طویل عرصے تک ایک بھی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔اس کے علاوہ 1965ء کی جنگ میں ایران اور افغانستان فی الواقع پاکستان کے لیے اسٹرٹیجک گہرائی ثابت ہوئے تھے جس کی بدولت پاکستان کے جنگی طیارے بھارت کی دست برد سے محفوظ رہے تھے۔
نائن الیون کے بعد پاکستان اور افغانستان کے باہمی رشتوں میں بہت بڑی منفی تبدیلی آئی۔ امریکہ نے افغانستان سے انتقام لینے کے لئے پاکستان کے ہوائی اڈے استعمال کیے اور طالبان کی حکومت ختم کرکے اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی تھی۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد تعلقات بہتر بنانے کی عملی کوشش کی۔ وہ جی ایچ کیو آئے اور شہادت گاہ پر پھول چڑھائے۔ پاکستان کی درخواست پر طالبان پاکستان کے بعض رہنما اس کے حوالے کیے، مگر اُنہیں بھارت، ایران اور امریکہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف پالیسیاں بنانے اور بیانات دینے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ بھارت نے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ قونصل خانوں کا جال بچھا رکھا ہے جن کے ذریعے بلوچستان اور پاکستان کے دوسرے حصوں میں تخریبی سرگرمیاں جاری ہیں۔ وہ ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری اور اپنی یونیورسٹیوں میں افغان طلبہ کی تعلیم کی جملہ ضرورتیں فراہم کر کے عوام کے دل جیت رہا ہے۔ اس کے برعکس ہم نے افغانستان کی سرحد طورخم اور چمن کے مقامات پر بند کر دی ہے جہاں ہر روز پچاس ہزار کے لگ بھگ لوگ سرحد عبور کرتے اور روزی کماتے ہیں۔ سرحد بند ہو جانے سے پھلوں اور سبزیوں کے ٹرک واپس آ رہے ہیں اور افغان عوام کو ان گنت دشواریوں کا سامنا ہے۔ سرحد سے متصل جماعت الاحرار کے تربیتی کیمپوں پر گولہ باری سے عام شہری بھی متاثر ہوئےتاہم ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے فائر کھولنے سے پہلے افغانستان کے اہم اہل مناصب سے بات کی اور انہیں 76دہشت گردوں کی فہرست دی جن کے خلاف آخری اقدام کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ افغان کمانڈر ان چیف نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ پورا تعاون کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں تعینات افغانی سفیر نے مشترک دشمن کے خلاف مشترکہ کارروائی کا یقین دلایا ہے اور اس کے ساتھ ہی 85دہشت گردوں کی فہرست بھی پاکستانی قیادت کے حوالے کر دی ہے جن کے خلاف مشترکہ کارروائی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الزام تراشی کا گھناؤنا کھیل جاری رہے گا اور سرحد کی بندش کے نتیجے میں دل ایک دوسرے کے لیے بند ہوتے جائیں گے۔
بلاشبہ جنوبی ایشیا میں ایک برق رفتار تبدیلی آ رہی ہے اور بلاکوں کی سطح پر نئے اتحاد وجود میں آ رہے ہیں۔ غالب امکان یہ ہے کہ چین، روس، ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آتے جائیں گے جبکہ بھارت، امریکہ اور بعض عرب ممالک ایک دوسرے کے ہم نوا ہوں گے۔ اس اعتبار سے عالمی اور علاقائی سطح پر پاکستان کی اہمیت اور قوت میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اسے دشمن طاقتوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے ایک ہمہ پہلو حکمتِ عملی اپنانا اور اپنے ناراض دوستوں کو ایک بار پھر اپنے حلقۂ اثر میں لانا ہو گا۔ بھارت کی یہ دھمکی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ افغانستان پر حملہ بھارت پر حملہ تصور ہو گا۔ ان بلاؤں سے بڑی دانائی اور بلند حوصلگی سے نمٹنا اور ہر قدم کامل ہوش مندی سے اُٹھانا ہو گا۔

.
تازہ ترین