• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں تو خبر پڑھ کر حیران ہونے کے علاوہ شرمسار بھی ہوئی کہ ٹیکساس میں مسجد جل جانے کے بعد، یہودی آبادی نے اپنی عبادت گاہ، مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لئے دیدی۔ ظاہر ہے یہ کوئی چال تو نہیں، انسانی ہمدردی کی ایک مثال ہے۔ جبکہ اس کے متضاد، کیوبک مسجد کے شہداء کی نماز ادا کی جارہی تھی جبکہ منٹریال کی مسجد پر شدت پسندوں نے حملہ کردیا۔ پاکستان کے لئے یہ کوئی اندوہناک حادثہ نہیں کہ ہم تو فرقہ وارانہ لڑائی کے چکر ہی سے نہیں نکلے ہیں۔ مجھے تو اب تک تعجب ہے کہ جوزف کالونی کی آبادی کو جلا دینے والوں کو اس بنا پر رہا کردیا گیا کہ گرفتار شدگان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔ چلو یہ مان لیتے ہیں مجھے بتائیں بلدیہ فیکٹری کو جلانے والوں نے تو خود اقرار کیا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں کے کہنے پر آگ لگائی اور دروازے بند کئے تھے۔
مجھے اظہار الحق جیسے معصوم مگر کھرے بندے پر رحم آتا ہے کہ اس نے حیران ہوکر لکھا ہے کہ ڈیڑھ ارب سے بڑھ کر مسلمان آخر جاگتے کیوں نہیں، بولتے کیوں نہیں۔ اب بھلا ایران پر امریکہ پابندی لگائے تو اس کا کوئی مخالف بھلا کیوں بولے گا۔ زیادہ تر مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے ہم مسلکوں کے وفادار ہیں۔ ان سے دوستی اچھی نہ ان سے دشمنی اچھی۔ ان دنوں مذہبی علماکی جانب سے دو طرح کے پیغامات موصول ہورہے ہیں۔ ایک تو ماں اپنے بچے کو اپنا دودھ پلائے، دوسرے یہ بچوں کی پیدائش میں تین سال کا وقفہ رکھے۔ ان خوش کن اعلانات کے بعد علماہی کا یہ مشترکہ اعلان کہ کسی بھی شخص پر کفر کا فتویٰ لگانے والے کو تصدیق کرنی پڑے گی کہ اس کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے۔ ورنہ اب تک تو یہ ہوتا رہا ہے کہ جس نے جب چاہا اپنی کسی سے دشمنی نکالنی ہو، خاتون ہو کہ مرد، اس پر مذہب دشمنی کا الزام لگا کر مقدمے بھی بنتے رہے۔ غیرت کے نام پر قتل بھی ہوتے رہے۔ لوگوں کو کیوں یاد نہیں ہے کہ پشاور میں چرچ اور مسجد ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ دونوں جانب سے کبھی کوئی معترض نہیں ہوا۔ اب تو ہمارے سیاست دانوں کو فیصلوں پر اعتراض کرنے اور انہیں غلط کہنے کا حوصلہ ہوا ہے۔ ہم تلور نہیں کھا سکتے، مگر ہمارے مہربان نہ صرف شکار کرتے ہیں۔ بلکہ 80باز، جہاز کی 80سیٹیں ریزرو کراکر، ان کو اپنے شاہی خاندان میں شامل کرنے کو لے جاتے ہیں۔ ہم تو اتنے کم حوصلہ لوگ ہیں کہ ابھی امریکہ میں ٹرمپ آیا نہیں، ہم نے اپنے پیادے اس کی چمپی کرنے کے لئے بھیج دئیے تھے۔ اتنی آزاد ہےانوشہ رحمان کہ آن لائن کچھ کہنا ’’خبرستان ٹائمز‘‘ کی طرح ممنوع ہوجاتا ہے۔ جبکہ آج 9سال ہوگئے گل جی اور زرو کے قتل کا معمہ، بالکل بے نظیر کے قتل کی طرح حل نہیں ہو پارہا مگر کمال تو یہ ہے کہ برطانوی حکومت بھی اتنی کمزور یا نالائق ہوگئی ہے کہ لاکھوں کروڑوں پائونڈ غیرقانونی طور پر رکھنے والے کے خلاف، سارے مقدمات ختم کرکے، بوریوں میں بند لاشیں دینے والے کو آزاد چھوڑ رہے ہیں۔
رفیعہ ذکریا، مشہور کالم نویس ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ جس طرح امریکہ میں ائیرپورٹس پر نمازیوں کے لئے، غیرمسلم حفاظتی دیوار بناکر کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ کیا کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں اسی طرح ہزاروں عیسائی اتریں، انہیں بھی داخلے میں مشکل ہوتو اسی طرح پاکستانی بھی قطار بنائے کھڑے اور مدد کے لئے تیارہوں گے۔ میں یاد کررہی ہوں وہ دن جب آنگ سان سوچی، برما میں گھر میں قید تھیں اور ہم اس کی رہائی کے لئے اپنی کتابوں کا انتساب بھی اس کے نام کررہےتھے اور اب اقتدار میں آکر وہ روہنگی مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کررہی ہے۔
رفیعہ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ ہم ترقی پسندانہ اسلام کی وضاحت کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہر گندمی رنگ کے شخص کو، مغرب کے لوگ، دہشت گرد قرار دینے لگتے ہیں۔
تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ جس بھی جماعت کو بین کیا جاتا ہے، وہ فوراً نئے نام کے ساتھ آموجود ہوتی ہے۔ سب کو معلوم ہے مگر کوئی کچھ نہیں کرتا ہے۔ حالانکہ پنجاب اور سندھ کے چیف منسٹروں کے پاس کم از کم بارہ محکمے ہیں۔ سب کچھ جانتے بھی ہیں۔ بالکل ایسے جیسے ہندوستان کی حکومت کو معلوم ہے کہ پاکستان نے انڈین فلموں پر سے پابندی اٹھالی ہے تو بقول راکیش روشن، ہندوستانی حکومت اب پاکستانی فلمیں، انڈیا میں ریلیز کیوں نہیں کررہی۔ غریب بندوں کے ساتھ انڈیا اور پاکستان دونوں میں ہوتا ہے کہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ کشتیوں میں سفر کرتے ہیں۔ کبھی بندے زیادہ ہونے کی وجہ سے یا پھر ناموزوں کشتی کی وجہ سے، کشتی الٹ جاتی ہے، کچھ ڈوب جاتے ہیں۔ کچھ بچ جاتے ہیں۔ کس سے میں پوچھوں کہ ایسے دوعلاقوں کے درمیان پل کیوں نہیں بنائے جاتے، موٹر وے بعد میں، پہلے غریبوں کی جانب توجہ کریں۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ دیہات میں اب بھی تعلیم یافتہ کم اوران پڑھ زیادہ ہیں، پھر بھی خواتین ممبران کی موجودگی کے باوجود اسمبلی نے جرگہ اور پنچائیت سسٹم کے حق میں ووٹ پاس کردیا ہے۔ کچھ تو پچھلے تجربات سے سبق سیکھنا چاہئے تھا۔ یہی حال میڈیا کا ہے۔ ایک شخص اور اس کے چینل کو بند کرنے کا کیا فائدہ۔ کئی اور لوگ مذہب ہی کے نام پر ہر روز اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرتے رہتے ہیں۔ اب تو بات اور بھی آگے بڑھ چکی ہے۔ بعض ڈرامے بھی انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کو یہ سب باتیں معلوم ہو ہی جاتی ہیں۔ اب میری آنکھ کھل گئی ہے!

.
تازہ ترین