• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
٭٭٭
’’آپریشن رد الفساد‘‘ ہمت مرداں مددِ خدا
فوج کا ملک گیر آپریشن ’’رد الفساد‘‘ شروع، ہمیں جزوی نہیں کلی اصلاح احوال کی ضرورت ہے۔ ایک ملک گیر و ہمہ گیر آپریشن کے لئے ماہر سرجنز کے ساتھ پیرامیڈیکل اسٹاف کی بھی ضرورت ہے، سرجری پاک افواج کریں گی اور پوری قوم آپریشن میں معاون ہوگی تو کوئی وجہ نہیں کہ اندر باہر کی کالی بھیڑوں اور بھیڑیوں کا صفایا نہ ہو۔ ہمیں پاکستان کو اسم بامسمیٰ یعنی پاکستان کی سرزمین کو ہر طرح کی نجاست سے پاک کرنا ہوگا، پاکستان، سجدہ گاہ ہے اس میں باوضو پھرنا ہوگا۔ ہماری مراد نیتوں کی صفائی، منافقت اور ہوس اقتدار و جلب ِ زر کا خاتمہ ہے۔ ملک کو اسلحہ سے پاک کردیاجائے تو جرم مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔پاکستان، عالم اسلام کے نقشے پر اسلام کا قلعہ ہے۔ یہی بات بہت سے کوارٹرز کو پسند نہیں۔ باہر سے اندر سے ہر کسی قسم کی فنڈنگ کی جانچ کرنا ہوگی کہ اسے کون، کہاں اور کس لئے استعمال کر رہا ہے۔ہمیں اپنے تمام نصابوں کے موضوعات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ انتہاپسندی کہاں سے ذہنوں میں منتقل ہوتی ہے۔ دہشت گردی کی ماں انتہاپسندی ہے اور انتہاپسندی اس قدر رچ بس گئی ہے کہ دام ہمرنگ زمین بن چکی ہے۔ سنبھل کے چلنا ہوگا۔ اخلاقیات کی گراوٹ اور جائز و ناجائز میں عدم امتیاز بھی افراد کو شر پر اکسانے کا ایک بڑا سبب ہے۔ بدکلامی، برے رویے، شرمیں سبقت لے جانے کاشوق ایک ایسی ذہنیت پیداکرتا ہے جو دہشت گردی کو زرخیز زمین فراہم کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے 20کروڑ پاکستانی اپنی فوج کے شانہ بشانہ ردِ فساد کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔ ہمیں پہلے دوا کرنا ہوگی بعد میں دعا اگر ایسا ہو تو مشیت ایزدی بھی ہمارے ساتھ رزم آرا ہوگی۔
٭٭٭
حالات سازگار نہیں تو حالات سے لڑو
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے:’’دہشت گردی پر قابو پالیا تو 17ویں بڑی معیشت بن جائیں گے۔ دہشت گردی اسی لئے ہو رہی ہے کہ پاکستان کی معیشت اور معاشرت کو تباہ کر دیاجائے۔ ‘‘ وزیر موصوف نے صحیح تشخیص کردی ہے۔ اب اس مرض کا علاج ہم سب کی من حیث القوم اہم ترین ذمہ داری ہے کہ زندہ قوم ہونے کی زندہ مثال قائم کریں۔ ہر فرد، ہر ادارہ، ہر سیاسی غیرسیاسی جماعت اپنی افواج کے پیچھے قدم جما کر کھڑے ہیں اور پاکستان جسے دشمنوں نے دارالفساد بنا دیا ہے اسے آپریشن ’’ردالفساد‘‘ کے ذریعے دارا لامن بنا دیں کہ زندہ قومیں کسی بھی مسلط کردہ آفت سے ایک دوسرے کا منہ نہیں دیکھتیں اپنی اپنی حب الوطنی کا فرض ادا کرتی ہیں۔ ہمیں حکم بھی یہی ہے کہ جب ایک دفعہ ارادہ کرلو تو اس پر ثابت قدم رہو۔ اگر کسی گھر میں فضا پرامن نہ ہو تو وہ بکھر جاتا ہے۔ شر کو دفع کرنا ہی موثر مدافعت ہے مگراس کے لئے آپس کے تنائو چاہے وہ کسی بھی نوعیت کے ہوں، ختم کرنا ہوں گے۔ جرم جو مکروہ ترین شکل اختیار کرچکا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مجرم کو یقین ہے کہ ہم سب اوپر سے نیچے تک اپنی ذات کےگرد گھوم رہے ہیں اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ خود غرضی، ایک دوسرے کے عیب تلاش کرکے خود کو اچھا دوسرے کوبرا ثابت کرنے کا جنون اب باہمی نفرتوں میں ڈھل چکا ہے۔ ذاتیات پرستی بھی ایک طرح سے ایک اناپرست دہشت گردی ہے۔ اس کا بھی خاتمہ ضروری ہے۔ ہماری معیشت لاکھ صحیح خطوط پر چلے مگر ماحول سازگار نہ ہو تو کوششیں بارآور نہیں ہوتیں۔ اقبالؒ نے کہا تھا ’’زمانہ گر تو نہ ساز و تو بازمانہ ستیز‘‘ (زمانہ تجھ سے سازگار نہیں تو زمانے سے لڑ) اور یہ کہ ’’حیات اندر ستیز است‘‘ (زندگی، لہو گرم رکھنے میں پوشیدہ ہے) 
٭٭٭
اپنی نبیڑ تو
ہنسنا منع نہیں، ہنسو کھیلو کہ اس طرح بے کار کے خوف دور ہوتے ہیں۔ کسی پر ہنسنے کے بجائے اپنے اوپر ہنسو کہ ہم ہر روز کوئی ایسی حرکت ضرور کرتے ہیں جس پر ہماری ہنسی نکل جاتی ہے۔ ہمارے لطیفوں پر غور کریں تو ان میں دوسروں کی حرکتوں سے ہنسی کا سامان پیدا کیاجاتا ہے۔ ایک نہایت ’’خوبصورت‘‘ آدمی رو رہا تھا۔ روتے ہوئے اس کی شکل مزید ’’خوبصورت‘‘ ہوگئی۔ وہ واش روم گیا اپنی صورت آئینے میں دیکھی تو ہنس پڑا۔ ہمارے اپنے رونے میں بھی ہنسی چھپی ہوتی ہے تو دوسروں کے رونے پرکیوں ہنسیں۔ کسی نے ایک خواجہ سرا کو دوشیزہ سمجھ کے پرپوزل دے دیا۔ کسی نے اس سے کہا یہ تو خواجہ سرا ہے اور اس نے اپنے کئے پرزور کا قہقہہ مارا۔ دوسروں کی حرکتوں پر ہنسنا جگت ہے لطیفہ نہیں۔ مزاح نہیں۔ لطیفہ بہت لطیف ہوتا ہے جبکہ ہمارے لطیفے بہت کثیف، مثلاً اکثر لطیفے سکھوں سے متعلق ہوتے ہیں کیا ہم اس طرح سکھ برادری کی عزت افزائی کر رہے ہوتے ہیں؟دل آزاری کی قیمت پر ہنسی بہت مہنگی پڑتی ہے۔ یقین نہیں آتا تو بس ذرا سا قیامت کا انتظار کرلیں۔اگر ہم صرف دوسروں کے بھلے کی حد تک اس کی معاونت کریں مداخلت نہ کریں تواس طرح پورامعاشرہ سدھر سکتا ہے۔ لیکن اپنے گھر کی اصلاح کے بجائے دوسروں کے عیب ڈھونڈنا ایک ایسا شر ہے جس کی حدیں انتہاپسندی سے ہوتی ہوئی غیر اخلاقی، غیرقانونی افعال سے جاملتی ہیں۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ کا یہ مصرع ہم سے بہت کچھ کہہ رہا ہے ؎
پڑی اپنے عیبوں پر جو نظر تو نظر میں کوئی برا نہ رہا
بعض اوقات برائی ، اچھائی کے پردے میں چھپ جاتی ہے
٭٭٭
جڑواں برائیاں اچھائیاں
O۔ لالو پرشاد:مودی، ٹرمپ کے جڑواں بھائی جیسے ہیں۔یہ پہلے جڑواں بھائی ہیں جن کا اندر ایک جیسا باہر مختلف، گٹھ جوڑ کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
O۔ ’’ڈالر گرل‘‘ایان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا نوٹیفکیشن ،ایان کی کیٹ واک ختم ہوئی خدا خدا کرکے۔
O۔ شیخ زید اسپتال میں نرس کو تھپڑ مارنے والا ڈاکٹر برطرف،اچھا ہوا معطل نہ ہوا۔ برخاست ہوا اب کوئی ڈاکٹر نرس کو تھپڑ نہیں مارے گا۔ دوسرے شعبوں میں بھی معطلی کا رواج ختم کرکے برطرفی کو رواج دیا جائے۔ بے اعتدالیاں ختم ہو جائیں گی۔
O۔ ناقص ادویات، ناقص ادویہ ساز مشینیں۔دراصل ناقص ذہنیتیں حقیقی سبب ہیں
O۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ وہ بھی ایک طرح سے ’’مہنگائی دہشت گردی‘‘ بن چکی ہے۔ہر دکاندار کا اپنا ریٹ ہے، اونچی دکانوں والے ستم بالائے ستم ڈھا رہے ہیں۔
٭٭٭


.
تازہ ترین