• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی ہمیشہ سے سے تو ایسا نہیں تھا‘ کراچی سندھ کی پرامن وادی کا ایک خوبصورت اورانتہائی پرامن شہر تھا کراچی کی پرورش لیاری اور ملیر نے کی۔ لیاری سے باہر ٹاور کے نزدیک ایک میٹھا در ہوتا تھا جہاں زمین سے میٹھا پانی نکلتا تھا جو لوگ پینے اور کھانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ اسی علاقے میں کھارا (نمکین) در بھی تھا جہاں سے نمکین پانی نکلتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کراچی شدید زخمی ہے اس کے جسم کے ہر حصے پر زخم ہیں۔ کراچی اس طرح شدید زخمی کیسے ہوا۔ ہم آج کے کالم میں اس ایشو کا جائزہ لینگے اور چاہیں گے کہ یہ جائزہ حقائق پر مبنی ہو۔ جب ہم کراچی کے زخموں کی بات کرتے ہیں تو اس طرح ہم آج کے کراچی کو درپیش مسائل کا ذکر کرنا چاہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کراچی مسائلستان بنا ہوا ہے۔ ہم کوشش کرینگے کہ ایک ایک کر کے کراچی کے سارے مسائل کی نشاندہی کریں۔ آئیے سب سے پہلے کراچی شہر میں کچرے کے لگے ہوئے ڈھیروں کا ذکر کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کراچی کے اکثر علاقے کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں مگر اس مرحلے پر انتہائی دیانتداری سے کم سے کم دو سوالات کا تجزیہ کریں گے۔ ان میں سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا یہ ڈھیر فقط گزشتہ 7-5سالوں سے نظر آنے لگے ہیں؟ کیا کچرے کے یہ ڈھیر اس وقت بھی نہیں تھے جب کراچی شہر پر ایم کیو ایم کی حکمرانی تھی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت بھی صوبے پر پی پی کی حکومت تھی۔ مگر اس سیٹ اپ میں ایم کیو ایم پی پی کی اتحادی پارٹی تھی۔ علاوہ ازیں کیا یہ صورتحال اس دور سے شروع نہیں ہوئی جب آمر جنرل پرویز مشرف نے ایک خاص قسم کا لوکل باڈیز آرڈنینس جاری کر کے اکثر اختیارات میونسپل کارپوریشنوں کے حوالے کر دیئے کیا اس آرڈنینس کے تحت کراچی کے میئر کراچی کا بے تاج بادشاہ نہیں تھا؟ کیا یہ بات غلط ہے کہ اس دور میں پی پی حکومت نے نہ فقط کراچی مگر سارے سندھ میں جو خاکروب مقرر کئے ان سے شہروں‘ راستوں اور گلیوں کی صفائی کا کام نہیں لیا جاتا تھا۔ یہ زیادہ تر مسلمان تھے۔ یہ تو تنخواہوں کا ایک حصہ لیتے تھے اور باقی حصے متعلقہ افسران‘ میونسپل کے منتخب ارکان اور متعلقہ علاقوں سے منتخب قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کی جیبوں میں جاتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہ سلسلہ فقط کراچی تک محدود نہیں تھا بلکہ پورے سندھ میں ایسا ہوتا تھا اور شاید اب تک ہو رہا ہے میرا خیال ہے کہ کراچی کا تو پھر بھی کچھ نہ کچھ خیال رکھا جاتا رہا ہے مگر سندھ کے دیگر بڑے اور چھوٹے شہروں اور گائوں کا حال تو بہت برا ہے۔ میں پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا کے بھائیوں سےگزارش کرونگا کہ وہ مختلف ٹیمیں بنا کر سندھ کے مختلف علاقوں کادورہ کریں اور خود مشاہدہ کریں کہ ان علاقوں کا کیا حال ہے یہاں میں یہ بات بھی یاد دلاتا چلوں کہ جنرل مشرف کے دور میں ایک مرحلے پرسندھ کے وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم تھے۔ کیا اس دور میں بھی کچرے اور گندگی کے حوالے سے کراچی اور باقی سندھ کی صورتحال آج کی صورتحال سے مختلف تھی؟ اگر بات گندگی کی کر رہے ہیں تو بات فقط یہاں تک ختم نہیں ہوتی کیا کراچی شہر میں گندے نالوں کی صورتحال بھی قابل مذمت نہیں ہے؟ اس صورتحال کاجب جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ کراچی شہر میں گندے نالوں کی گندگی تو پتہ نہیں کب سے شروع ہوئی‘ انگریزوں کے دور میں کراچی کے مختلف علاقوں میں گندے نالے بنائے جاتے تھے جن کے ذریعے شہر میں استعمال ہونے والے گندے پانی کو شہر کے راستوں پر پھیلنے کے بجائے سمندر تک پہنچایا جاتا تھا مگر یہ نالے اس وقت اور زیادہ کارآمد ثابت ہوتے جب کراچی میں بارشیں ہوتیں۔ اس وقت نالے بارش کا پانی لیکر سمندر میں پھینکتے۔ یہ جو آ ج کل بارشوں کے دوران شہر کے سارے روڈ اور گلیاں پانی کے دریابن جاتے ہیں یہ صورتحال ان نالوں کی وجہ سے اس وقت نہیں بنتی تھی آج ان نالوں کی کیا صورتحال ہے؟ یہ گارڈن روڈ پر گندے نالے کے اوپر پولیس والوں کے کوارٹر بنے ہوئے ہیں اس طرح سابقہ ایم پی ایز ہاسٹل کے سائیڈ میں آج بھی ایک نالہ آدھے میں بند پڑا ہوا ہے اور اس کے اوپر کوسٹ گارڈز والوں کی میس بنی ہوئی ہے اس طرح شہر کے مختلف علاقوں میں انگریزوں کے دور میں بنے ہوئے ان نالوں کو ا س طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں خاص طور پر اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کراچی کو نہ فقط بے دریغ عمودی طور پر اور افقی طور پر پھیلایا جا رہا ہے مگر کچھ عناصر کے ’’مخصوص مفادات‘‘ کی خاطر اس بات کی ہمت افزائی کی جاتی ہے کہ غیر قانونی غیر ملکی زیادہ سے زیادہ کراچی میں آباد ہوں تاکہ ان کو ساتھ ملا کر وہ کراچی کو ایک شہر کے بجائے ایک صوبے کی تشکیل دے سکیں مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟
آج یہ دہشت گردی کیوں ہے‘ گلی کوچوں میں قتل وغارت گری‘ چوری اور تالے توڑنے کی وارداتیں کیوں بڑھ گئی ہیں جو لوگ کراچی کے حوالے سے شکاتیں کرتے ہیں ان کو اگر کراچی کا مفاد عزیز ہے تو چند اہم فیصلے کرنا ہونگے۔ مثال کے طور پر کراچی کی زیادہ سے زیادہ آبادی کی حد مقرر کرنے کے علاوہ ہر طرف سے کراچی شہر کی حدود کا بھی تعین کرنا پڑے گا۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے نہ فقط غیرقانونی غیر ملکیوں کوکراچی سے نکالنا پڑے گا مگرکچھ ایسے انتظامات کرنے پڑیں گے کہ اب کے بعد غیر قانونی غیر ملکی کراچی کے باسی نہ بن سکیں۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جب کراچی میں شروع سے کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور دیگر ادارے رہے ہیں تو کراچی شہر کے لئے ضروری منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی کیا یہ بات کراچی کے مفاد میں ہے کہ 40منزلہ اور 50منزلہ عمارتوں کی ایک بڑی تعداد شہر میں ہو یا شہر وسیع علاقے میں پھیلا ہو۔ کراچی کے بے دریغ پھیلنے کا کام سب سے پہلے کراچی شہر میں بنی ہوئی چھائونیوں نے کیا۔ ایک تاثریہ بھی ہے کہ ایک مرحلے پرانہوں نے کراچی شہر کی میونسپلٹی کو اعتماد میں لئے بغیر خود اپنی اپنی حدود میں کمرشلائزیشن شروع کر دی حالانکہ یہ ذمہ داری کنٹونمنٹ بورڈز کی نہیں ہوتی یہ تو حکومت اور میونسپل اداروں کا کام ہوتا ہے کہ وہ پورے شہر کے لئے ایک یکساں منصوبہ بندی کریں بعد میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب پرویز مشرف کے دور میں کراچی کے میونسپل ادارے ایم کیو ایم کے ہاتھ میں آئے تو ان کے دور میں بڑی بڑی عمارتیں بننے اور کمرشلائزیشن کے عمل نے ساری حدود کو پار کر دیا۔ پہلے میں یہ بات ضرور ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ کراچی کو نہ فقط زلزلوں کا خطرہ ہے مگر کئی ماحولیاتی سائنسدانوں نے Forecastکیا ہوا ہے کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پورا کراچی سمندری سونامی کے نتیجے میں سمندر میں ڈوب سکتا ہے۔

.
تازہ ترین