• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوکے میں قیام اور دوران تعلیم مجھے ہر روز کوئی نہ کوئی نئی بات سیکھنے کو ملتی تھی کچھ باتیں فوری سمجھ آجاتی تھیں اور کچھ کی افادیت سمجھنے میں وقت لگتا تھا ۔ اسی طرح وہاں آتے جاتے سڑک پر لگائے جانے والا ایک بورڈ روزانہ میرا منہ چڑاتا تھا اور میں سوچتا تھا کہ آخر ایسی کیا آفت آگئی ہے کہ ڈیڑھ سال قبل ہی ان گوروں نے یہ بورڈ آویزاں کردیا ہے کہ یہ سڑک فلاح سال کی فلاں تاریخ کو بند ہوجائے گی اور اس کی جگہ آنے جانے کیلئے آپ کو دوسری سڑک کے ذریعے راستہ اختیار کرنا ہوگا ۔میں یہ سوچتا تھا کہ جس روز لوگوں کو یہ سڑک بند ملے گی وہ خود بخود دوسرا راستہ اختیار کرلیںگے، ڈیڑھ سال پہلے ہی یہ باور کرانے کی کیا ضرورت ہے ۔ اسی طرح گوروں نے کچھ سال پہلے اوور سیزا سٹوڈنٹس کو یہ باور کرانا شروع کردیا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جاب کیلئے ورک پرمٹ کی پالیسی فلاں سال سے ختم کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے گوروں کی یہ پھرتیاں کہ آپ کا فلاں کارڈ فلاں تاریخ کو مدت ختم ہونے کی وجہ سے غیر مؤثر ہوجائیگا، یا آپ کو فلاں تاریخ سے ہوسٹل کا کمرہ خالی کرنا ہوگا، پھر مجھے آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی کہ گورا اچانک کوئی افتاد ڈالنے یا کوئی نئے فیصلے کو لاگو کرنے سے پہلے عوام کو یا اس سے متعلقہ لوگوں کو آگاہ کردیتا ہے تاکہ وہ ذہنی طور پر تیار رہیں اور اپنا دیگر بندوبست کرلیں یا اس حوالے سے انہیں کوئی تحفظات ہیں تو وہ مل کر دور کرلیں ۔اس لئے وہاں نہ کبھی اچانک بجلی کی بندش یا گیس کی سپلائی روک جانے پر ٹین ڈبے اور دیگچے اٹھاکر شاہراہوں پر آنا اور احتجاج کرنا پڑتا ہے اور نہ سڑکو ں پر ٹا ئر جلا کر ٹریفک معطل کر نے کی ضرو ر ت پیش آتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو سب کچھ اس کے برعکس چلتا ہے ، مثلاً گزشتہ روز لاہور کے ایک ہسپتال میں اچانک’’ ہٹو بچو‘‘ کا شور بلند ہوا ، ایمبولینس گاڑیاں سائرن بجاتی بھاگنے دوڑنے لگیں، ہسپتال کی راہداریوں میںا سٹریچرز کو تیزی سے موو کرنا شروع کردیا گیا، دھماکوں اور دہشتگردی کے پے در پے واقعات سے جہاں لوگ کسی ٹائر کے پنکچر ہونے کی آواز سے گھبرا جاتے ہیں یا کوئی پٹاخہ پھوڑدے تو لوگ گھبرا کر بھاگنا شروع کردیتے ہیں، وہاں ہسپتال میں ایسی بھاگ دوڑنے سراسیمگی دوڑا دی مریض خوفزدہ ہوگئے مائیں اپنے بچوں کو سنبھالنے لگیں ایک عجیب افراتفری پھیل گئی ، ڈاکٹروں، نرسوں اور مریضوں کی عجیب بھاگ دوڑ نے سب کو ڈرا کر رکھ دیا کہ تھوڑے سے معاملات سنبھلے تو معلوم ہوا کہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کی ریہرسل ہو رہی ہے ۔ بغیر کسی اعلان کے یا پہلے آگاہی کہ اچانک اس ریہرسل سے فوراً ایک حادثہ رونماہوسکتا ہے ، بھاگم دوڑ میں کوئی کچلا جاسکتا ہے ،پہلے سے بیماری میں مبتلا مریض کسی اٹیک کا شکار ہوسکتا ہے ، اسی طرح ہم تعلیمی اداروں میں اچانک چھٹی کا اعلان کردیتے ہیں یا اچانک چھٹی منسوخ کردیتے ہیں جس سے والدین اور بچے ایک دوسرے کو فون کرکے پریشان ہوتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں بلکہ ہمارے ہاں ایک اور ڈرامہ بھی کیاجاتا ہے جو ٹریفک پولیس کرتی ہے کہ خلاف ورزی سے روکنے کی بجائے چھپ کر بیٹھ جاتی ہے اور خلا ف ورزی کر نے وا لو ں کو اچانک آ دبوچتی ہے ، اس کے علاوہ کوئی شخص یا فیملی اگر گاڑی پارک کرکے شاپنگ کیلئے جاتے ہیں تو واپسی پر گاڑی غائب ہوتی ہے ، بھاگ دوڑ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ نوپارکنگ میں گاڑی پارک کرنے کی وجہ سے ٹریفک پولیس کا لفٹر گاڑی اٹھا کر لے گیا ہے ، سرکاری اداروں میں ایک روزایک قانون یا ضابطہ ہوتا ہے دوسرے روز جب سائل اپنا مسئلہ لے کر جاتاے تو معلوم ہوتا ہے کہ اب نئی پالیسی بنا دی گئی ہے درخواست فارم تبد یل ہو گیا ہے یا متعلقہ کام کیلئے نئے آفس کو ذمہ داری دے دی گئی ہے ، ہوٹلوں اور ریستورانوں پر صفائی کے حوالے سے چھاپے درست اور اچھا اقدام ہے لیکن اس کیلئے بھی اچھا ہوتا کہ پہلے ایک مکمل قانونی ضابطہ دیا جائے کہ وہ اس کی پابندی کریں ابھی صرف سروں پر ایک سبز جالی کی ٹوپی پہن کر یہ دکھادیا جاتا ہے کہ سب ٹھیک ہے ، حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر نظم و ضبط پیدا کریں تاکہ عوام بھی نظم و ضبط کی پابندی کریںاور افرا تفری میں ضا بطے یا قوا نین بنا نے کی بجا ئے سٹیک ہو لڈرز کو اعتما د میں لیں اوربا ہمی مشا ورت سے پا لیسی بنا ئیں۔


.
تازہ ترین