• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لوچستان کے علاقے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے اربوں ڈالر کے ذخائر کی دریافت کو د و عشروں سے زیادہ مدت گزر جانے کے باوجود ان سے اب تک استفادے کا سلسلہ شروع نہ ہونا بلاشبہ فوری توجہ طلب معاملہ ہے تاہم اس تناظر میں یہ ایک اچھی خبر ہے کہ بلوچستان کابینہ نے ثالثی کے دو بین الاقوامی اداروں میں زیر التواء اس معاملے کو عدالت سے باہر نمٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ضلع چاغی میں واقع اس پروجیکٹ کو مشرف دور میں کینیڈا اور چلی کی کمپنی ٹیتھیان کاپر کے سپرد کیا گیا تھا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بوجوہ کمپنی کا لائسنس منسوخ کردیا جس پر کمپنی نے لندن اور پیرس میں دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کرلیا لیکن تین سال گزرجانے کے بعد بھی یہ معاملہ ان اداروں میں معلق ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ترجمان کے مطابق اب صوبائی حکومت نے اس معاملے کو عدالت سے باہر نمٹانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ گزشتہ روز برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے صوبے اور ملک کا بڑا نقصان ہورہا ہے، لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ عدالت سے باہر اس کا کوئی قابل عمل تصفیہ ہوجائے۔ ٹی سی سی کے ساتھ دوبارہ کسی معاہدے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اب ایسے سرمایہ کار لائیں جو بلوچستان حکومت اور عوام کے تحفظات اور مفادات کو پوری طرح ملحوظ رکھیں۔واضح رہے کہ ریکوڈک کے قریب ہی سینڈک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ بھی ہے ، ضلع لسبیلہ میں سیسے کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں جبکہ مجموعی طور پر ملک میں پائی جانے والی پچاس میں سے چالیس معدنیات بلوچستان سے حاصل کی جارہی ہیں۔ تاہم صوبے اور ملک کے عوام کو بظاہر ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہاہے۔ ان قیمتی ذخائر پر یقینا سب سے زیادہ حق صوبے اور ملک کے عوام کا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے معاملات طے کرنے میں سو فی صد شفافیت کا اہتمام کیا جائے اور انویسٹرز سے کئے جانے والے معاہدوں میں قومی اور عوامی مفادات کو اولین ترجیح دی جائے۔

.

.
تازہ ترین