• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا کا شکر ہے کہ سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت ختم ہوئی، اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ ناقدین کے مطابق شریف فیملی کا یہ تاثرگیا ہے کہ اس کے مالی معاملات مشکوک ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اثاثے اور ذرائع کھل کر بیان کرنے سے اجتناب کرتے دکھائی دئیے ۔ آخری چارے کے طور پر اُنھوںنے کچھ قانونی موشگافیاں تلاش کرکے ، کچھ ٹیکنیکل پوائنٹس کا سہارا لے کر قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی کوشش کی ۔اس تمام کارروائی کے دوران اُن کے رویے اور دفاع کے طریق ِ کار نے خود اُنہیں ہی نقصان پہنچایا۔ اب تو یہ فیصلہ ہی بتائے گاکہ کیا نقصان ’’مہلک‘‘ثابت ہوا یا نہیں۔
قطع نظر اس کے کہ وزیر ِاعظم پاناما سے بچ نکلتے ہیں یا نہیں، اس کیس میں سامنے آنے والے ایشوکا تعلق آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کو حاصل اختیارات سے ہے ، اور اس کیس کا یہ وہ مقام ہے جہاں غیر یقینی پن کی فضا گہری ہوجاتی ہے ۔ قانون کی حکمرانی کا تصور پرکشش ، کیونکہ اس کی وجہ سے نظام کو استحکام ملتا ہے ۔ دوسری طرف کھیل کے قوانین عوامی میدان میں طے پاتے ہیں اور وہ افراد کی مرضی کے تابع نہیں۔ لوگ پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ قوانین ، حقوق، تحفظ اور سزا کا دائرہ کیا ہے اور ان میں موجود رخنوں سے بچ نکلنا بھی اسی کھیل کا حصہ ہے ۔ نیز یہ بھی عوامی علم کا حصہ ہے کہ ایسے رخنے کس طرح ڈالنے ہیں اور ان کی ضرورت کسے پیش آتی ہے ۔
اس وقت پاکستان دم سادھے پاناما کیس کے فیصلے کا انتظار کررہا ہے ۔ صورت ِحال اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ دوطرفہ حقائق کا مکمل علم ، بھرپور تحقیقات اورقانونی سوچ بچار کے بعد بھی کوئی ماہر حتمی پیش گوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ہر کیس میں فیصلہ ایک حتمی عنصر کے طور پر موجود ہوتا ہے ، لیکن جب ایک سائل کسی پہنچنے والی زک پر قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے کسی وکیل سے مشور ہ کرتا ہے تو قانون کی بالا دستی پر یقین رکھنے والے معاشرے میں وکیل ہی اُسے بتادیتا ہے کہ کیا اس مسئلے پر قانون اُس کی داد رسی کرسکتا ہے یا نہیں۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر قانونی راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔
تاہم موجودہ کیس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ تاحال کوئی بھی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں کہ فیصلہ کیا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) ، جو سپریم کورٹ کے اختیارات تفویض کرتا ہے ، کی بابت کوئی رہنما اصول وضع نہیں کیے گئے ہیں۔ سابق چیف جسٹس، افتخار چوہدری کے دور میں ہم نے آرٹیکل 184(3)کا پنڈولم کسی نہ کسی انتہاپر ہی دیکھا۔ اس کی وجہ سے وہ غیر یقینی پن کی فضا قائم ہوتی تھی جس میں تمام نظریں فاضل عدالت کی طرف لگی رہتی تھیں ، اور یوں ’’بریکنگ نیوز ‘‘ تخلیق ہوتی ۔ چاہے جو بھی ایشو ہو، اس پر سپریم کورٹ کا ادراک ہی حتمی علاج تصور ہوتا تھا ۔ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے جوڈیشل اتھارٹی کا حتمی استعمال اصلاح کے لئے ضروری سمجھا گیا۔ یہاں دلیل یہ ہے کہ ایک ملک میں ، جہاں قانون نافذ کرنے والے بعض ادارے اشرافیہ کی خواہشات کے مطابق کام کرتے ہیں، اور جہاں کچھ افراد اداروں سے زیادہ طاقتور ہیں، اور جہاں ریاست کی عدم فعالیت نے گورننس کا بحران پیدا کردیا ہے تو اس صورت ِحال میں کسی نہ کسی کو تو لاچار شہریوں کی داد رسی کرنی چاہئے تاکہ یہ خلا پُر ہوسکے ۔ روایتی طور پر یہ ’’دادرسی کرنے والا عامل‘‘مقتدر ادارے کو سمجھا جاتا تھا، لیکن 2009 ء کے بعد یہ ’’عوام کی سپریم کورٹ ‘‘ تھی جس نے آرٹیکل 184(3) کا استعمال کرتے ہوئے حکومت کی سرزنش کرنا شروع کردی، اور عوام کے دل جیت لئے۔
سوموٹو کے اُس زرخیزماحول اور فعالیت کے دل خوش کن موسم میں کچھ دیگر معاملات بھی پیش آئے۔ حکومت ِ وقت اور اس کے اداروں کے خلاف عوامی اشتعال پیداہونا شروع ہوگیا۔ یہ وہ وقت تھا جب نیب ’’لائن آف فائر‘‘پر کھڑا دکھائی دیتا تھا۔ 2011 ء میں سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب، جسٹس دیدار شاہ کو گھر بھیج دیا۔ 2013ء میں اس نے ایڈمرل فصیح بخاری کو برطرف کرنے کاحکم دیا۔ اُن دنوں سپریم کورٹ نے بدعنوانی کے لاتعداد کیسز پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا۔ یاد رہے، وہ میڈیا ٹرائل کے ساون بھادوں کا بھی موسم تھا۔ عدالت میں ایف آئی اے کی گوشمالی ایک معمول تھی۔ اس نے اداروں کو ایک طرف کرتے ہوئے خود ہی ایک تحقیقاتی ادارے کے طور پر کام کرنا شروع کردیا تھا۔ جب 2009 ء میں سپریم کورٹ نے این آر او کو کالعدم قرار دیا تو ہم نے قانون کی بالا دستی کا جشن منایا۔ کہا گیا کہ بدعنوانی سے پاک پاکستان کی صبح طلوع ہورہی ہے ۔ جب وزیر ِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر زرداری کے خلاف بدعنوانی کے کیسز کھولنے کے لئے سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکار کردیا تو گیلانی صاحب کو توہین عدالت کی سزا سنادی گئی ۔ ایک مرتبہ پھر ہم نے شادیانے بجائے کہ اب پاکستان میں ایسا دور شروع ہوگیا ہے جہاں انتہائی طاقتور اور بااثر افراد بھی قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے ۔ جب سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کو کھولنے کا اعلان کیا تو ہم نے کہا اب تو جنرل اور سیاست دان بھی بلاامتیاز قانون کے کٹہرے میں کھڑے دکھائی دیں گے ۔
لیکن آج جسٹس چوہدری دور کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ انتہائی فعالیت دکھاتے ہوئے بھی عدالت نے کیا کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ؟کتنے بدعنوان سیاست دانوں کے گرد قانون کا گھیرا تنگ ہوا؟کیا جن کا میڈیا ٹرائل کیا گیا ، عدالت اُنہیں سزا سنانے میں کامیاب ہوئی؟کیا چیئرمین نیب کو برطرف کرنے اور ایف آئی اے کے افسران کی مسلسل سرزنش کرنے سے پاکستان بدعنوانی سے پاک ملک بن گیا؟کیا فاضل عدالت کی طرف سے براہ ِراست مداخلت اور تحقیقات سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوا؟عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے علاوہ سپریم کورٹ اور اس کے چیف نے 184(3) کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے عوام کے لئے کیا کچھ کیا ؟کوئی ایساریلیف جو عوام کو یاد ہو؟
جسٹس چوہدری دور کی بے پناہ فعالیت کے بعد تھکاوٹ کے اثرات نے عدالت کو گھیر لیا اور ہم نے پنڈولم کا جھکائو دوسری انتہاکی طرف دیکھا۔ اُس کے بعد کبھی آرٹیکل 184(3) کی باز گشت سنائی نہ دی۔ فعالیت کے جوبن کے دنوں میں عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ کی رسم اب قصہ ٔ پارینہ بن چکی ہے ۔ تو کیا پاناما کیس کے ساتھ ہی ہم پنڈولم کو ایک بار پھر دوسری انتہاکی طرف جاتے دیکھیں گے ؟اگر ایسا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ اس آرٹیکل کے گرد چھائی ہوئی غیر یقینی پن کی دھند کو صاف کرلیا جائے؟کیا آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ، اس کے کسی بنچ یا چیف جسٹس کو بے پناہ اختیارات دیتا ہے ؟ ’’Mustafa Impex‘‘ میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ آئین وفاقی حکومت کی کابینہ کے تناظر میں تشریح کرتا ہے ، نہ کہ صرف وزیر ِاعظم کی ۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ سے مراد جج حضرا ت اور چیف جسٹس صاحب ہیں۔ چنانچہ اس آرٹیکل کی حقیقی عملداری کا تعلق ہے تو کیا ایک بنچ یا چیف جسٹس صاحب تمام سپریم کورٹ کو حاصل اختیارات خود استعمال کرسکتے ہیں؟
کیا ہم ایسی قانونی فعالیت کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں قانون کی تشریح کو غیر معمولی حالات کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا؟ اکیسویں ترمیم کو کیا گیا چیلنج سپریم کورٹ نے مسترد کردیا تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ عدالت کے پاس آئین کے کسی حصے کو معطل کرنے کا اختیار نہیں بلکہ اس لئے کہ فوجی عدالت میں سویلینز کا ٹرائل شہری حقوق اور اداروں کے اختیارات میں تقسیم کے تصور کی خلاف ورزی کے مترادف ہے ۔ اگر ملک میں نظام ِعدل موثر نہیں ہے اور یہ عام شہری کی داد رسی سے قاصر ہے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا سپریم کورٹ اور اس کے سترہ جج صاحبان جتنی مرضی فعالیت دکھاتے رہیں، یہ نظام عام شہری کو تحفظ نہیں دے پائے گا۔ چنانچہ سپریم کورٹ کی نیب پر برہمی بجاہے کہ یہ عام شہریوں کے ساتھ کسی اور طریقے سے برتائو کرتا ہے اور خواص کے ساتھ کسی اور طریقے سے ۔لیکن ضروری ہے کہ سپریم کورٹ جسٹس سسٹم میں بھی اس خرابی کی اصلاح کرے۔

.
تازہ ترین