• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ ہر وقت گلستانِ سیاست کی کانٹوں بھری کلیاں چنتے رہتے ہیں اور پاناما سے لے کر دہشت گردی تک ذہنی الجھنوں کا شکار رہتے ہیں اس لئے مجھے خیال آیا کہ تبدیلی ٔذائقہ کے لئے آپ کو تھوڑی سی تاریخ کی سیر بھی کروائی جائے کیونکہ مفکرین متفق ہیں کہ تاریخ قوم کا حافظہ ہوتی ہے۔ حافظہ زوال پذیر ہو جائے اور یادداشت پر وقت کی گرد جمنے لگے تو اسے صاف کرنا اور یادوں کو تازہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں محترم عبدالغفار خان المعروف سرحدی گاندھی کی برسی منائی گئی۔ ان کو سرزمین پاکستان سے اتنی شدید’’محبت‘‘ تھی کہ انہوں نےاس کے دامن میں ابدی نیند بھی گوارہ نہ کی اور وصیت کے مطابق افغانستان بلکہ کابل میںآخری آرام گاہ بنانے کی وصیت کی۔ وہ سرزمین پاک میں دفن ہوتے تو ان کے فدائین ان کا مزار تعمیر کرتے اور اس پر سالگرہ اور برسی کی تقریبات منعقد کرتے لیکن وہ اس دیارِ غیر میں جابسے جہاں سے ہمارے لئے خودکش بمبار ’’تشریف‘‘ لاتے ہیں۔
ان کی برسی پر کچھ کالم دیکھے تو احساس ہوا کہ یہ تاریخ کامحض ایک رخ ہے اور اس پر کانگریسی نقطہ نظر کا غلبہ ہے جبکہ دوسرا رخ مسلم لیگی ہے جسے خان صاحب کے عقیدت مندوں نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ خان صاحب کے طویل سیاسی سفر اور جدوجہد پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ میں صرف تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے فیصلہ کن لمحات میں محترم خان عبدالغفار خان کے سیاسی کردار پر مختصر سی روشنی ڈالوں گا اور اس حوالے سے دو عینی شاہدین کے چھوٹے چھوٹے حوالے دوںگا تاکہ تاریخ کا اصل چہرہ فراموش نہ ہو جائے۔ یہ معتبر ترین عینی شاہدین سردار عبدالرب نشتر اور چوہدری محمدعلی ہیں۔ معمولی سی جھلک ان کی تحریروں کی پیش خدمت ہے۔
’’جامعہ ملیہ دہلی میں ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کے ہاں عبدالغفار خان سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے بہتیرا عبدالغفار خان کو سمجھایا لیکن اس نے پختونستان کا اسٹنٹ کھڑا کیا ہوا تھااوراصرار کرتا رہا کہ پہلے صوبہ سرحد کی آزادی تسلیم کی جائے پھر ریاستوں کی طرح ہم پاکستان سے معاہدہ کرکے الحاق کریں گے۔ یہ بھی اس پرانے خواب کی تکمیل کی کوشش تھی جو پچیس برس سے وہ دیکھ رہے تھے یعنی صوبہ سرحد میں اپنے خاندان کی ریاست قائم کرنا۔ دو\گھنٹہ گفتگو کرکے ہم رخصت ہوگئے۔ عبدالغفار خان نے کانگریس سے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے مطابق اگر سرحد کے عوام کو رائےدینا پڑی تو ظاہر ہے کہ وہ پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے کیونکہ ہندو مسلم کا سوال ہے۔ البتہ اگر ایک تیسرا سوال بھی اٹھایا جائے یعنی سرحد کو بالکل آزاد رہنے کا تو ممکن ہے صوبہ سرحد والے دھوکہ میں آجائیں اوروہ آزاد سرحد کے لئے ووٹ دیں۔ گاندھی بھی مائونٹ بیٹن سے ملنے گئے۔ بحث میں صوبہ سرحد کی رائے شماری کا سوال آیا تو یہ ذکر آیا کہ اگر عبدالغفار خان اور قائداعظمؒ آپس میں ملیں تو ممکن ہے کہ سمجھوتہ ہو جائے اوررائے شماری کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ فساد وغیرہ کا خطرہ تھا۔ چنانچہ قائداعظمؒ کو بلایاگیا۔ انہوںنے فرمایا کہ وہ بڑی خوشی سے عبدالغفار خان سے ملاقات کریں گے۔ قائداعظمؒ نے فرمایا کہ ہم دونوں مسلمان آپس میں تصفیہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے وائسرائے کے گھر کیوں باتیں کریں جیسا فیصلہ ہو میرے گھر ہی ہو۔ آخر عبدالغفار خان نے کہا کہ وہ قائداعظمؒ کے گھر چلے جائیں گے۔ میں اور قائداعظمؒ حسب ِ معمول مشورہ کے لئے عصر کے وقت ان کے گھر میں جمع ہوئے۔ شام کو وقت ِ مقررہ پر عبدالغفار خان آئے میں باہر گیا تو ان کے ساتھ میاں جعفر شاہ اورعبدالغفار خان کے داماد یحییٰ خان تھے۔ قائداعظمؒ باہر تشریف لائے۔ بہت محبت سے عبدالغفار خان کو اپنے کمرے میںلے گئے۔ باقی حضرات تو باہر چلے گئے میں یہاں میاں جعفر شاہ اوریحییٰ خان کے پاس والے کمرے میں بیٹھارہا۔ ایک گھنٹہ قائداعظمؒاور عبدالغفار خان علیحدگی میںباتیں کرتے رہے اس کے بعد قائداعظمؒ اور عبدالغفار خان باہر نکلے۔ قائداعظمؒاپنے گھر کے دروازےتک انہیں رخصت کرنے آئے۔ نامہ نگاروں نےسوال کئے تو عبدالغفار خان نے جواب دیاکہ محمد علی جناح سے پوچھیں۔ قائداعظمؒ سے سوال ہوئے تو انہو ںنےفرمایا کہ ہماری دوستانہ گفتگو ہوئی اور عبدالغفار خان اپنے رفقا سے گفتگو کرکے مجھے جواب دیںگے۔ جب عبدالغفار خان اور ان کے ساتھی چلے گئے تو قائداعظمؒ مجھے اپنے ساتھ کمرے میں لے گئے اور مجھے خلاصہ بحث بتایا اور فرمایا کہ بنوں میں ان کی جماعت کا اجلاس ہے وہ اس میں فیصلہ کریں گے جو گفتگو ہوئی اس کا متن حسب ذیل ہے۔
قائداعظمؒ نے ان سے کہا کہ جو کچھ ماضی میں ہوا ہے اسے بھلا دینا چاہئے۔ جب آپ کی ایک رائے تھی اور ہماری دوسری، اب جب کہ پاکستان کا فیصلہ ہو چکا ہے اس لئے اب یہ ہمارا اور آپ کا مشترکہ وطن ہے۔ ہمیں آپس میں مل کر اس کی تقویت اور ترقی کے لئے سعی کرنی چاہئے۔ دوران گفتگو عبدالغفار خان نے کہا کہ یہ سب باتیں درست تو ہیں لیکن میں باقی لوگوں کو کس طرح راضی کروں؟ قائداعظمؒ نے فرمایا ’’اگر میں اور آپ متفق ہیں تو ہم ان لوگوں کے پاس جو پختونستان کے حامی ہیں، جائیں گے، جلسہ عام کریں گے۔ ان کی غلطی سے ان کو آگاہ کریں گے۔ چونکہ ظاہر ہے کہ یہ فضول بات ہے اس لئے ان کی تسلی کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔‘‘ اس پر عبدالغفار خان نے کہا کہ یہ چیز عام لوگوں میں نہیں صرف میرے چند رفقا ہیں جن سے مل کر ہم اس غلط فہمی کو دور کریںگے۔ قائداعظمؒ نے جواب دیا آپ نے تو میرا کام سہل کر دیا اگر صرف آپ کے چند رفقا تک بات محدود ہے تو ان کو قائل کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ اگر آپ اور میں متفق ہیں۔ بالآخر عبدالغفار خان نے اپنے آپ کو قائدؒ سے متفق ظاہر کیا تو قائدؒ نے فرمایاکہ اخباروں میں تو یہ لکھاہے کہ آپ کو فیصلہ کا اختیار آپ کی جماعت نے دیاہے۔ انہوں نے جواب دیاکہ ہاںیہ صحیح ہے لیکن اعلان کرنے کےبجائے یہ بہتر ہوگا کہ میں جماعت کے سامنے بنوں والے اجلاس میں یہ معاملہ پیش کرکے فیصلہ کااعلان کروں۔ قائداعظمؒ نے فرمایا میرا خیال ہے عبدالغفار خان حالات کو سمجھ گئے ہیںاس لئے وہ اب صحیح راستہ پر آجائیں گے۔
دوسرے دن میاں جعفر شاہ کا فون آیا کہ وہ قائداعظمؒ کو عبدالغفار خان کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔ .....میرے پاس خط واپس لائے پتہ لگا کہ عبدالغفار خان نے ڈان اخبار کے مضمون کے خلاف شکایت کی تھی کیونکہ اس میں عبدالغفار خان کے خلاف برا بھلا لکھا تھا۔ اسی شام کو گاندھی جی نے پرارتھنا میں یہ کہا کہ عبدالغفار خان کی ملاقات تو قائداعظمؒ کے ساتھ ہوگئی ہے لیکن امید نہیں کہ اس بات چیت کا کوئی مفید نتیجہ نکلا ہوگا۔ مسلم لیگ کو پختونستان مان لینا چاہئے اس سے اندازہ ہو گیا تھا کہ عبدالغفار خان کیا کرنے والے ہیں۔ دوسرے دن علی الصبح عبدالغفار خان نے مجھ سے ٹیلیفون پر گفتگو کی کہ میں قائداعظمؒ سے کہوں کہ وہ صوبہ سرحد کی آزادی مان لیں۔ پھر عبدالغفار خان صوبہ سرحد کی طرف سے پاکستان کے ساتھ ملنے کا اعلان کریں گے۔ چند دن بعد بنوں میں عبدالغفار خان اور ان کی جماعت کا اجلاس ہوا۔ انہوں نے وہی پختونستان کی رٹ لگائی اور قائدؒ کی ملاقات وغیرہ کا ذکر اپنی تجویز میں بہت افسوسناک الفاظ میں پیش کیا چونکہ ان کو رائے شماری کانتیجہ معلوم تھا اس لئے اعلان کیا کہ وہ رائے شماری کا بائیکاٹ کریںگے۔ چنانچہ رائے شماری ہوئی۔ عام طور پر جب دونوں فریق سرحد کے انتخابات میں حصہ لیتے تھے تو تقریباً 40یا45 فیصد رائے دہندہ ووٹ دینے جایاکرتے تھے۔ اس رائے شماری میں 50فیصد سے زیادہ لوگوں نے رائے دی کہ وہ پاکستان میں شامل ہوجانا چاہتے ہیں۔ (آغا مسعود مبین کی تالیف سردار عبدالرب نشتر کی سوانح عمری سے ماخوذ) اب ملاحظہ فرمایئے چوہدری محمد علی کی کتاب ’’ظہور ِ پاکستان‘‘ سے چھوٹا سا اقتباس.....
’’تقسیم ہند کے مرحلے پر گاندھی نے جس شخص کو بالخصوص نمایاں کرنے کی کوشش کی وہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کا سرخپوش لیڈر عبدالغفار خان تھا۔ گاندھی اسے پیار سے بادشاہ خان کہتا تھا۔ ابوالکلام آزاد جسے ایک سال پہلے تک بطور صدر کانگریس بہت مشتہر کیا جاتا تھا اب گوشہ ٔ گمنامی میں تھا اور شہرت کی سٹیج پر عبدالغفار خان کو سب سے اہم ’’قوم پرست‘‘مسلمان کے طور پر فائز کردیا گیا تھا۔ گاندھی کا مقصد شمال مغربی سرحدی صوبے کو پاکستان سے علیحدہ رکھنا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس صوبے میں کانگریسی وزارت کے پائوں اکھڑ رہے ہیں اور مسلم لیگ روزافزوں تقویت حاصل کر رہی ہے کیونکہ عوام کی اکثریت پاکستان کی حمایت کر رہی تھی ۔ اس صوبے کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 92فیصد تھا اور اگر ہندوستان کا سیدھا مقابلہ پاکستان سے ہوتا تو عوام نے پاکستان کی ہی حمایت کرنا تھی۔ اس لئے گاندھی نے پختونستان یا آزاد شمال مغربی سرحدی صوبے کا شوشہ چھوڑ دیا۔ حکمت جنگی کی ایک چال تھی اس کا مقصد پاکستان کے علاقوں کو گھٹانا اور اس کے گرد گھیرا ڈالنا تھا۔ بعد میں جب ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں کانگریس کے عزائم بروئے کار آ جاتے تو پھر شمال مغربی سرحدی صوبہ کو بھی جو کشمیر سے متصل تھا انڈین یونین میں دوبارہ شامل کیاجانا تھا۔ وقتی طور پر گاندھی کی ساری توجہ پختونستان کی سکیم اور بادشاہ خان پر مرکوز تھی جس کے بارے میں وہ اپنی روزانہ پرارتھنا کی مجلسوں میں بڑے سوز و گداز سے ذکر کرتا تھا۔ پیارے لال نے ایک واقعہ لکھا ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ گاندھی کس قسم کے جذبات کی آبیاری کر رہا تھا۔ 6مئی کو عبدالغفار خان نے بڑے حسرت و اندوہ کے ساتھ کہا ’’بہت جلد ہم ہندوستان میں اجنبی بن جائیں گے۔آزادی کے لئےہماری طویل جدوجہد کا خاتمہ پاکستان کی محکومی کی صورت میں نکلے گا۔ ہم باپو (گاندھی) سے دور ہوں گے، بھارت سے دور ہوں گے اور آپ سب سے دور ہوں گے۔ کون جانتا ہے کہ مستقبل میں ہمارا کیا حشر ہونے والا ہے؟‘‘ جب گاندھی نے یہ باتیں سنیں تو اس نے کہا ’’بادشاہ خان تو سچ مچ فقیر ہے۔ آزادی تو آئے گی لیکن بہادر پٹھان اپنی آزادی کھو بیٹھیںگے۔ وہ بہت ہی سنگین صورتحال سے دوچار ہیں لیکن بادشاہ خان تو مرد ِ خدا ہے۔‘‘
یہ ’’فقیر‘‘ شمال مغربی سرحدی صوبے کےامیر ترین زمینداروں میں سے تھا۔ وہ کانگریس کی مدد سے اس صوبے میں اپنے خاندان کی حکومت کا خواب دیکھ رہا تھا جہاں اس کا بھائی ڈاکٹر خان صاحب وزیراعلیٰ تھا اور دوسرا مسلمان وزیر اس کا رشتہ دار تھا۔ گاندھی کی طرف سے پیار کاخطاب ’’بادشاہ‘‘ بھی بالواسطہ طور پر ان امنگوں کی حوصلہ افزائی کے لئے تھا جن کی یہ ’’مرد ِخدا‘‘ اپنے دل میں پرورش کر رہا تھا اور یہ کہا جارہا تھا کہ بہادر پٹھان ہندوئوں کے تحت ہند میں تو آزادی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے لیکن مسلم پاکستان میں آزادی سے محروم ہو جائیں گے۔



.
تازہ ترین