• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فلسطینی مجاہدین کی بغیرہتھیار مزاحمت کی حمایت میں چھٹی عالمی انتفادہ کانفرنس کا تہران، ایران میں 21 اور 22 فروری 2017ء کو اہتمام کیا گیا، جس میں 80 ممالک سے 700 مندوبین شریک ہوئے، اِن ممالک میں تقریباً تمام اسلامی ممالک کے سرکاری یا اُن تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے جو فلسطین کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں، اس کانفرنس میں کئی ممالک کی اسمبلیوں کے اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر اور کئی تنظیموں کے سربراہان موجود تھے، پاکستان سے تقریباً 20 افراد پر مشتمل وفد شریک ہوا، جن میں پارلیمان سے متعلق افراد، علماء کرام اور کئی سیاسی و دینی جماعتوںکے نمائندے شامل تھے، اگرچہ یہ وفد غیرسرکاری طور پر مختلف وجوہات کی بنا پر اِس اجلاس میں شریک ہوا تاہم اس کوایک بڑا وفد کہا جاسکتا ہے، 21 فروری 2017ء کو اِس کے افتتاحی اجلاس میں ایران کے رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای خصوصی طور پر شریک ہوئے اور اسٹیج پر وہ تنہا بیٹھے تھے اور صدر حسن روحانی و ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی سامعین میںسب سے آگے بیٹھے تھے اور بعد میں ایران کے دفاعی و سیاسی و مذہبی رہنما تشریف فرما تھے، یہ ایک خصوصی اور منفرد انداز کی کانفرنس تھی، اِس کانفرنس میں فلسطین کے نمائندے بھی نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے تھے ۔جس طرح فلسطین کے مسئلے پر اِس کانفرنس میں فلسطینیوں کی حمایت کی گئی اس سے یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلسطین تحریک انتفادہ کو بڑی تقویت ملی ہے اور یہ کہنا بجا ہوگا کہ اِس تحریک میں نئی روح پھونک دی گئی ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای صاحب کی تقریر جامع، مربوط اور روح کو گرما دینے والی تھی، انہوں نے فرمایا کہ فلسطین کے لوگوں نےتاریخ کی بدنما ترین بربریت کا سامنا کیا ہے اور سخت ترین مشکلات سے گزرے ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ تاریخ کے اس ظلم و ستم کا باب اللہ کے حکم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا، اس لئے کہ قدرت کے نظام میں ظلم کو بالآخر شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِس جدوجہد میں لاکھوں فلسطینیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے، جبری نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور اُن لوگوں کے ہاتھوں جو باہر سے آ کر فلسطین کی سرزمین پر قابض ہوگئے اور جن کو بہت سی قوتوں کی حمایت حاصل رہی، کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی کے علاقہ پر قبضہ کرلیا جائے اور بتدریج اُن کی سرزمین سے بے دخل کردیا جاتا رہے۔ یہ درست ہے کہ یہ کانفرنس علاقائی اور عالمی تھی مگر دشوار ترین حالات میں منعقد ہورہی تھی، جب ساری دُنیا میں بھونچال آیا ہوا ہے اور ساری دُنیا عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے ، کئی ایسے علاقے بھی ہیں جہاں سے عالمی جنگ کی ابتدا ہوسکتی ہے، اس میں ایک تو ملک شام ہے، دوسرا فلسطین اور تیسرا کشمیر جہاں کے عوام کی جدوجہد آزادی طویل ترین ہے، جنہوں نے 1931ء سے جنگ آزادی شروع کی اور ظہر کی اذان دینے میں 22 افراد نے جامِ شہادت نوش فرمایا، اِسکے بعد فلسطین کی جدوجہد آزادی طویل ترین ہے جس کی وجہ سے چھ جنگیں لڑی جا چکی ہیں ، چھٹی عرب اسرائیل جنگ 33 دنوں کی تھی جس میں اسرائیل کو اس طرح سے شکست ہوئی کہ وہ ایک ملک نہیں بلکہ ایک تنظیم پر قابو نہیں پاسکا جبکہ اُس کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل تھی، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ تحریک جنگ آزادی میں کئی پیچ و خم آتے ہیں اور کافی اتار چڑھائو ہوتا رہتا ہے مگر جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ اپنے ان بندو ںکو بالادست کر دیتا ہے جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کا ذکر خاص طور پر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کیا۔
اِس کانفرنس کی یہ خوبی تھی کہ اِن 80 ممالک میں سے غیراسلامی ممالک کے کئی ممالک کے نمائندوں نے نہ صرف شرکت کی بلکہ فلسطین کے انتفادہ کی مکمل حمایت کی۔ آئرش لبریشن تحریک کے مندوب نے انتہائی پُرجوش انداز میں یہ کہا کہ فلسطینیوں پر تاریخ کا بدترین ظلم بند کیا جائے تو اُن کو بہت سراہا گیا۔ جنوبی افریقہ کی خاتون ممبر اسمبلی نے فلسطین کی آزادی کی انتہائی خوبصورت انداز میں حمایت کی۔ قبرص کی خاتون ممبر پارلیمنٹ نے بھی مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی انتفادہ فلسطین کی حمایت میں کلمات ادا کئے۔ پاکستان کے مندوب اویس لغاری نے نہ صرف فلسطین کی تحریک کی حمایت میں علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے بیانات کا حوالہ دیا کہ وہ فلسطین کے مسئلے کے معاملے میں کس قدر فکرمند تھے، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کشمیر کا حوالہ دیا کہ کشمیر اور فلسطین دونوں امت مسلمہ کے مسئلے ہیں اور اُن کی حمایت کی جانی چاہئے، بھارت دہرا گیم کھیل رہا ہے، ایک طرف اسرائیل سے اسلحہ خرید رہا ہے دوسری طرف وہ عرب ملکوں سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ اسکے علاوہ بولیویا کی خاتون مندوب نےجس پر جوش انداز میں فلسطین کی تحریک انتفادہ کی حمایت کی اس سے سارا کنونشن ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ چارکمیٹیاں پارلیمانی، این جی اوز ، مزاحمت اور نوجو انان پر مشتمل تشکیل دی گئیں، جن کی سفارشات تھیں کہ ایران میں انتفادہ کی حمایت جاری رکھنے کیلئے ایک مستقل دفتر قائم کیا جائے جو اس تحریک کی حمایت کو جاری و ساری رکھے، اس میں ایک میڈیا سیل موجو ہو جودشمن کے پروپیگنڈے کو بے اثر کرے، آخر میں اِس بات پر اتفاق ہوا کہ تمام مسلم ممالک ،انصاف پسند اور حریت پسند تحریکوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کریں۔



.
تازہ ترین