• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند ماہ قبل میری صاحبزادی جو لندن میں قیام پذیر ہے، کو وہاں لندن اسپتال میں ایمرجنسی میں داخل کیا گیا تو مجھے فوری طورپر لندن جانا پڑا۔ برطانیہ میں ہر شہری کے لئے مفت علاج معالجے کی سہولت ہے جس کو این ایچ ایس یعنی نیشنل ہیلتھ سروس کہتے ہیں۔ وہاں کے اسپتال میں مریضوں کی سہولتیں دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کیا یہ سرکاری اسپتال ہے ۔ ہمارے سرکاری اسپتال تو دور کی بات پرائیویٹ اسپتال بھی اتنے صاف ستھرے نہیں ہوتے ۔ ہر فلور پر مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے عملہ با اخلاق ہوتا ہے ، ڈاکٹرز کا تو جواب ہی نہیں ۔ مریضوں سے ایسے گھل مل کر علاج کرتے ہیں جیسے ان کے عزیز ہوں۔ ٹھہر ٹھہر کر رپورٹیں سنانااور جب تک تسلی نہ ہو مریض کو سمجھا تے رہنا ۔ مریضوں کے لئے کھانے پینے کا بہترین انتظام ہوتا ہے ۔ ہر مذہب کے مطابق حلال سبزیاں ، یہودیوں کے لئے کوشر (Koshar) گوشت کا بندوبست ہوتا ہے۔ مریضوں کو خوش اخلاق عملہ احساس نہیں ہونے دیتا کہ وہ گھر پر ہیں یا اسپتال میں ہیں۔ آدھے آدھے گھنٹے کے بعد ہر مریض کو آکر دیکھتے ہیں ، تمام ادویات بھی مفت مہیا کی جاتی ہیں۔ مریض کی تیمار داری کے لئے صبح و شام 2گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے ۔ البتہ مریض کے کمرے میں کسی کو بھی ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ میری صاحبزادی کا کمرہ الگ تھا ، میں نے طبیعت کی زیادہ خرابی کی وجہ سے خود یا اہلیہ کو ٹھہرنے کی اجازت ڈاکٹر سے مانگی تو اس نے برا سا منہ بنا کر کہا کہ کیا آپ کو میرے عملے پر اعتبار نہیں ہے ۔ ہمارے فرض میں شامل ہے کہ ہم ہر حال میں مریض کی دیکھ بھال عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ میں لاجواب ہو کر بیٹی کے گھر آگیا۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی بجی میں نے دروازہ کھولا تو ایک نوجوان خاتون نے اپنا تعارف کرایا کہ میں پڑوسن ہوں آپ کون ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں صبوحی (میری بیٹی کا نام ) کا باپ ہوں اور پاکستان سے ملنے آیا ہوں۔ اس نے مجھے اور میری بیگم کو بڑے ادب سے ہیلو ہائے کہا کہ صبوحی کی طبیعت اب کیسی ہے ، کیونکہ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کس اسپتال میں ہے ۔ میں نے بتایا کہ اب طبیعت بہتر ہو رہی ہے ، ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اس کو 3روز اور اسپتال میں رہنا پڑے گا۔ اس خاتون نے بتایا کہ میں یہودی ہوں اگر آپ اجازت دیں تو سبزیاں یا دال پکا سکتی ہوں ۔ اس کو معلوم تھا کہ ہم مسلمان غیر مسلم کا گوشت نہیں کھاتے اور یہودی بھی غیر کا پکا ہوا گوشت نہیں کھاتے ۔ میں نے شکریہ ادا کیا ، اس نے ایک پیکٹ دیا اور کہا کہ اس میں کیک ہے جو خود اس نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے ۔ جب میں دوبارہ اسپتال جاؤں تو صبوحی کو دے دوںاور کہوں کہ مجھے اس کی بہت فکر ہے ۔ خدا اس کو جلد تندرست کر دے اور وہ جلد اپنے گھر واپس آجائے۔ جاتے جاتے پھر اس نے کہا کہ مجھے یا میری بیگم کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجک مجھے بتا دیں۔ شام کو میرا داماد آیا تو میں نے اس کو پڑوسن کا کیک دیا اور کہا کہ رات کو وہ جب اسپتال جائے تو کیک بھی ساتھ لے جائے ۔ ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ دوسری پڑوسن بھی آئی ، اس نے بھی میری بیٹی کے متعلق پوچھا ۔ وہ بھی ایک بڑا تھیلا ساتھ لائی تھی ، اس میں فروٹ تھے، اس کا تعلق جاپان سے تھا وہ بھی پریشان تھی۔ میرے داماد نے بتایا کہ یہاں پڑوسی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ آپس میں میل ملاپ کا یہ حال ہے کہ ہم جب پاکستان جاتے ہیں تو اپنے گھر اور گاڑی کی چابیاں ایک دوسرے کو دے کر جاتے ہیں تاکہ وہ گھر میں اگر کوئی پرندہ یا جانور ہو تو اس کی دیکھ بھال کر سکیں اور پودوں اور گھاس کو پانی دے سکیں ، ایک دوسرے کی ڈاک سنبھال سکیں۔
رات کو ایک بلب بھی جلا دیا جاتا ہے تاکہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس گھر کا مقیم باہر گیا ہوا ہے ۔ یہ پڑوسی آپس میں کھانے پینے اور تحائف کا تبادلہ بھی کر تے ہیں ۔ ہر ایک کے تہوار پر ایک دوسرے کو وش کرتے ہیں ، ایک دوسرے کے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ لندن میں ہر مذہب ، ہر نسل کے لوگ بستے ہیں ، ان کو اپنے مذہب کی پوری آزادی ہے ۔ بہت سے گرجے تو مسلمانوں نے خرید کر مساجد میں تبدیل کر لئے ہیں۔ کسی کو کسی کے مذہب پر اعتراض کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ البتہ عبادت گاہوں میں باہر لاؤڈ اسپیکر لگانے کی اجازت نہیں ۔ مسجد کی اندرونی حدود میں آپ اسپیکر لگا سکتے ہیں ۔ لندن کی ہر کاؤنٹی (حلقہ) میں سرکاری اسکول لازمی ہوتا ہے جو اس علاقے کے رہنے والوں کے لئے مفت پڑھائی کا بندوبست کرتا ہے ، Oلیول تک مفت تعلیم ہے ۔ شیر خوار بچوں کو 14سال تک دودھ الاؤنس ملتا ہے ، بڑوں کے لئے بے روزگاری الاؤنس، رہنے کے لئے مفت مکان اور جیب خرچ دیا جاتا ہے ۔ ہر علاقے میں مفت سرکاری اسپتال ہیں ۔
24گھنٹے مفت ایمبولینس سروس کا انتظام کاؤنٹی کرتی ہے جو پراپرٹی ٹیکس وصول کرتی ہے ۔ علاقے سے ہر گھر سے ہفتے میں ایک مرتبہ کچرا اٹھاتی ہے ، علاقے کی صفائی ستھرائی ،کھیلوں کے لئے جگہ جگہ باغات ، بچوں کے لئے جھولے لگے ہیں۔ 3ہفتےبعد لندن سے واپس آگیا ، کیونکہ میری بیٹی چوتھے دن صحتیاب ہو کر گھر آگئی تھی ۔ ڈاکٹروں نے 3ہفتے مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا ۔ دوایاں اور احتیاط کرنے کا بھی مشورہ دیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہاں یہودی، مسلمان ، عیسائی رہتے ہیں ۔ الگ الگ ملک کے باشندے ایک دوسرے کے دکھ درد میں صرف پڑوسی ہونے کے ناطے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور وہ بھی غیر ممالک میں۔ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے پڑوسی سے واقف نہیں ، ایک دوسرے سے ملنے ملانے سے کتراتے ہیں۔ آج بھی مذہب کی آ ڑ میں مارنے ، مرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ جبکہ اسلام سختی سے غیر مذہب کے اقلیتی ہونے کے باوجود ان کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے ۔ آج ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ خود ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ہاتھوں غیر محفوظ ہو چکا ہے ۔ حکومت خاموش ہے ۔
گزشتہ ایک ماہ سے پورا پاکستان دوبارہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔ پہلے بلوچستان میں فوجیوں پر حملہ کیا گیا پھر لاہور ، پشاور میں حملہ ہوا اور اس کے بعد سندھ میں درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر میںحملہ کیا گیا جس میں تقریباً 100سے زائد افراد شہید ہوئے اور اتنے ہی زخمی ہوئے اور ایک ہفتے بعد کل دوبارہ لاہور پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہونا تھا اس کو یہ سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے ۔ ہمارے وزیر داخلہ کا بیان ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا پروگرام ہے ۔ تو میری گزارش ہے کہ جناب آپ کی کیا ذمہ داری ہے ، آپ اس ملک کے وزیر داخلہ ہیں موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف نے آپریشن ردالفساد کا فیصلہ کیا ہے اور پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ اُمید ہے کہ اس دہشت گردی پر جلد از جلد قابو پا لیا جائے گا۔ اللہ ہمارے ملک پاکستان کی حفاظت کرے ۔( آمین)



.
تازہ ترین