• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو مطلوب 76دہشتگرد جہاں ہیں وہاں ہمارا کنٹرول نہیں ، افغان سفیر

کراچی(ٹی وی رپورٹ)پاکستان میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زخیل وال نے کہا ہے کہ  پاکستان نے 76 دہشتگردوں کی فہرست دی ہے، افغانستان کے کچھ علاقے ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں، فہرست میں شامل چند دہشتگرد افغانستان کے ان علاقوں میں ہوسکتے ہیں جہاں پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے، اگر پاکستان میں کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے جس کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ افغانستان کو اس کی اطلاع یا اس تک رسائی حاصل ہے۔  ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں کے خلاف افغانستان میں کارروائی ہم نے اپنی ایما پر کی ہے، پاکستان میں افغانستان کیلئے خطرناک عناصر کیخلاف کارروائی کی کوئی خاطر خواہ مثال نہیں ہے، افغانستان میں ایسے افراد کی جانب سے دہشت گرد حملے ہوئے جو پاکستان میں موجود ہیں، طالبان کی اہم قیادت پاکستانی سرزمین پر موجود ہے جس کی ایک مثال پاکستان میں مارے جانے والے ملا اختر منصور ہیں، میں جی ایچ کیو کے ساتھ میٹنگز کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے طلب کیا گیا، لاہور دھماکے کے بعد میری جی ایچ کیو کے ساتھ میٹنگ ہوئی تھی جو طلبی نہیں تھی، دونوں ممالک کو دہشتگردی کیخلاف لڑائی میں مشترکہ لائحہ عمل ڈھونڈنا ہوگا۔ وہ جیونیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں پاکستان کی اندرونی صورتحال پر پی ٹی آئی کے رہنما اسحاق خاکوانی،پیپلز پارٹی کے رہنما مولابخش چانڈیو اور مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری سے بھی گفتگو کی گئی۔ مولابخش چانڈیو نے کہا کہ چوہدری نثار سے ذاتی شکایات نہیں ان کا احترام کرتا ہوں، سندھ حکومت کی بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار کا لہجہ طنزیہ ہوجاتا ہے، چوہدری نثار کو وفاقی چہرہ دکھانا چاہئے، چوہدری نثار ہمارے وزیر داخلہ بن کر تنقید کریں تو قبول کریں گے۔ طارق فضل چوہدری نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی طرف سے صوبوں میں تفریق نہیں ہے، دونوں ہی پاکستان بھر میں امن چاہتے ہیں۔ اسحاق خان خاکوانی نے کہا کہ وزیر اعظم اگر وزیر داخلہ کی بات نہیں مانتے تو انہیں عہدے سے الگ ہوجانا چاہئے۔ پاکستان میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر زخیل وال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت نے ماضی میں پاکستان کے کہے بغیر بھی کارروائیاں کی ہیں، ٹی ٹی پی اور پاکستان کیلئے خطرہ بننے والے دیگر گروہوں کے خلاف افغانستان میں کارروائی ہم نے اپنی ایما پر کی ہے، اگر کوئی درست معلومات فراہم کی گئیں تو ہم اس پر ضرور کارروائی کریں گے، اگر یہ معلومات ان جگہوں کے بارے میں ہے جہاں تک رسائی مشکل ہے تو اس پر بھی کارروائی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشتگردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ بین الاقوامی اتحادی فورسز بالخصوص امریکی افواج کے ساتھ ملکر کررہے ہیں، ہم ان سے ڈرون، ہوائی اور زمینی مدد لیتے ہیں، پاکستان کی فراہم کردہ فہرست کا جائزہ افغان انٹیلی جنس کے ساتھ اتحادی افواج نے بھی لیا ہے، پاکستان کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات پہلے بھی دی جاچکی ہیں۔ عمر زخیل وال نے بتایا کہ پاکستان کی فراہم کردہ معلومات کا افغان فورسز، بین الاقوامی فورسز اور بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسیاں کی مدد سے سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں، افغانستان نے بھی پاکستان کو ایک فہرست دی ہے جس میں پاکستان میں موجود افغانستان کیلئے خطرہ بننے والے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کی تفصیلات ہیں، افغانستان میں ایسے افراد کی جانب سے دہشتگرد حملے ہوئے ہیں جو پاکستان میں موجود ہیں اور ان کے پتے عام معلومات ہیں، ان افراد کے نام سب جانتے ہیں اور وہ پاکستان میں گھوم رہے ہیں، ہم یہ تمام معلومات پہلے بھی پاکستان کو دے چکے ہیں مگر اس پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ عمرزخیل وال کا کہنا تھا کہ پچھلے سال میں ٹی ٹی پی یا داعش کیخلاف اگر کوئی اہم کارروائی کی گئی ہے تو وہ افغانستان میں ہی ہوئی ہے، پاکستان میں افغانستان کیلئے خطرناک عناصر کیخلاف کارروائی کی کوئی خاطرخواہ مثال نہیں ہے، ہمیں یقین ہے کہ طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ ،مشہور زمانہ کوئٹہ شوریٰ ، پشاور شوریٰ اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ یا اہم کمانڈر پاکستان میں موجود ہیں۔عمر زخیل وال نے کہا کہ طالبان کی اہم قیادت پاکستانی سرزمین پر موجود ہے جس کی ایک مثال پاکستان میں مارے جانے والے ملا اختر منصور ہیں ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملا اختر منصور کہاں سے آرہا تھا، ملا اختر منصور کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا جس سے اس نے درجنوں بار پاکستانی ایئرپورٹس سے سفر کیا تھا، طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کی تصاویر سے تمام انٹیلی جنس ادارے واقف ہیں، اگر ملا اختر منصور کی پاکستان میں موجودگی کا پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کو علم نہیں تھا تو یہ ان کی صلاحیت پر سوال ہے۔ افغان سفیر کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں پتا کہ ملا عمر کہاں دفن ہیں، امید ہے پاک افغان سرحد جلد کھل جائے گی، پاک افغان سرحد کو بند نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ یہ کراسنگ پوائنٹس ہیں جنہیں سختی سے ریگولیٹ کیا جاتا ہے، سرحد کے دونوں اطراف چیکنگ کے تمام آلات اور افراد موجود ہیں، اگر پاکستان کو سرحد پار سے آنے والے غیرضروری عناصر کا خدشہ ہے تو چیکنگ بڑھائی جاسکتی ہے لیکن ان کراسنگ پوائنٹس سے لوگوں اور تجارت کی آمدورفت کو نہیں روکنا چاہئے۔ عمر زخیل وال کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد کی بندش پر روزانہ کی بنیاد پر پاکستان سے بات کررہے ہیں، اب تک کی بات چیت کے مطابق پاک افغان سرحد آج جزوی طور پرا ور اگلے تین چار دنوں میں مکمل کھولی جاسکتی ہے۔ افغان سفیر عمر زخیل وال نے بتایا کہ مجھے جی ایچ کیو طلب نہیں کیا گیا تھا، میں جی ایچ کیو کے ساتھ میٹنگز کرتا ہوں توا س کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے طلب کیا گیا، پاکستانی فوجی قیادت کے ساتھ رابطہ اس لئے ضروری ہے کہ سرحد کی کراسنگ اور افغانستان کے ساتھ معاملات میں یقینی طور پر فوج کا عمل دخل ہے، سیہون دھماکے کے بعد میں اسلام آباد میں نہیں کابل میں تھا، حقیقت یہ ہے کہ سیہون دھماکے کے بعد کوئی طلبی نہیں ہوئی، لاہور دھماکے کے بعد میری جی ایچ کیو کے ساتھ میٹنگ ہوئی تھی جو طلبی نہیں تھی۔ عمر زخیل وال کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر قابل مذمت حملے ہوئے ہیں، ایسے ہی حملے افغان سرزمین پر بھی جاری ہیں، ان حملوں کے نتیجے میں جو تناؤ پیدا ہوا وہ ہمیں ایک دوسرے کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع دے گا، آخر میں دونوں ممالک کے پاس محفوظ محسوس کرنے کے علاہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوگا، دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دہشتگردی کیخلاف لڑائی میں مشترکہ لائحہ عمل ڈھونڈنا ہوگا، اچھے اور برے طالبان میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن دونوں ممالک کے لئے تمام دہشتگرد برے ہیں، افغانستان کیلئے بھی پاکستان کی سیکیورٹی بھی اسی طرح اہم ہے جیسے کہ پاکستان کیلئے افغانستان کی سیکیورٹی اہم ہے، اس قسم کی ذہنیت کے ساتھ ہم دہشتگردی سے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل تلاش کریں گے، پچھلے ہفتوں میں پاکستان سے تعمیری بات چیت ہوئی اور ہم نے غور کیا کہ ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں، میں اپنی پوری کوشش کررہا ہوں ارو مجھے یقین ہے پاکستان کی طرف سے بھی آگے بڑھنے کی کوششیں ہیں، مجھے یقین ہے کہ ہم آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرلیں گے کیونکہ یہ لوگوں کی خواہش ہے،پاکستان اور افغانستان دو برادر ممالک ہیں ،آج کل دونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ ہے لیکن آگے بڑھنے سے ہم اس قابل ہوجائیں گے کہ بہتر انداز میں معاملات چلاسکیں۔مولابخش چانڈیو نے کہا کہ مجھے چوہدری نثار سے ذاتی شکایات نہیں ان کا احترام کرتا ہوں، چوہدری نثار وزیرداخلہ کی حیثیت سے اپنی ناکامی قبول کرنے کے بجائے ساری ذمہ داری صوبوں خصوصاً سندھ پر عائد کردیتے ہیں، سندھ حکومت کی بات کرتے ہوئے چوہدری نثار کا لہجہ طنزیہ ہوجاتا ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت پر بات کریں تو لگتا ہی نہیں کوئی قومی رہنما بول رہا ہے، چوہدری نثار کی ان باتوں پر مجھے تکلیف ہوتی ہے،وزیرداخلہ چوہدری نثار کو وفاقی چہرہ دکھانا چاہئے، چوہدری نثار ہمیشہ آصف زرداری اور بلاول کی باتوں پر معنی خیز چہرے بناتے اور جملے بولتے ہیں جو وفاقی وزیر کو زیب نہیں دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کسی قومی مسئلے پر پہلے قدم نہیں اٹھاتی ہے، آپریشن ضرب عضب جنرل راحیل شریف کے نوٹس لینے پر شروع کیا گیا، آپریشن رد الفساد بھی آرمی چیف جنر ل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر شروع ہوا، ن لیگ دہشتگردی کیخلاف آپریشن میں ہمارے ساتھ نہیں کھڑی تھی، دہشتگردوں کیخلاف آپریشن پر افواج پاکستان کو سلام پیش کرتے ہیں۔مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ سندھ حکومت کو بھی ریاست کا حصہ سمجھیں، چوہدری نثار ہمارے وزیر داخلہ بن کر تنقید کریں تو قبول کریں گے۔طارق فضل چوہدری نے کہا کہ دہشتگردی کسی بھی صوبے میں ہوشہید صرف پاکستانی ہورہے ہیں، وزیراعظم اور وزیر داخلہ پاکستان بھر میں امن چاہتے ہیں، وزیراعظم اور وزیرداخلہ کی طرف سے صوبوں میں تفریق نہیں ہے، اگر سیہون میں سیکیورٹی کمزور تھی تو سندھ حکومت کو تسلیم کرنا چاہئے، لاہور حملے کے بعد چند دنوں میں سہولت کار پکڑلیا گیا ، ہمارے دورِ حکومت میں آپریشن کے بعد کراچی میں امن آیا ہے، ن لیگ کبھی صوبائیت کے حوالے سے بات نہیں کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں بھی جاتے ہیں، پیپلز پارٹی نے کراچی میں لیاری گینگ بنایا ، دہشتگردی کیخلاف اربوں کے آپریشن وزیراعظم نواز شریف اور حکومت پاکستان برداشت کررہی ہے۔اسحاق خان خاکوانی نے کہا کہ چوہدری نثار کو کچھ لوگ نشانہ بناتے ہیں، وزیراعظم کچھ نہیں چاہتے تو چوہدری نثار وہ کام نہیں کرسکتے ہیں، وزیر داخلہ چوہدری نثار نیکٹا کو فعال کرنے میں ناکام نظرا ٓتے ہیں، وزیراعظم بھی چوہدری نثار کی بات نہیں سنتے ہیں، وزیراعظم اگر وزیرداخلہ کی بات نہیں مانتے تو انہیں عہدے سے الگ ہوجانا چاہئے، چوہدری نثار کسی سے نہیں ملتے ہیں بلکہ دو دن سرکاری ہیلی کاپٹر لے کر اپنے حلقے میں گھومتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سول اداروں کے پاس دہشتگردوں کو پکڑنے کیلئے مہارت نہیں ہے، فوج کے کچھ خاص محکموں کے پاس ہی یہ اہلیت موجود ہے۔میزبان طلعت حسین نے پروگرام میں اہم نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کا معاملہ بہت سنگین نوعیت اختیار کرگیا ہے، سعودی عرب سے آنے والی ویڈیوز کے مطابق وہاں کمپنیاں دیوالیہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی پھنس کر رہ گئے ہیں، ان کی مدد پاکستانی سفارتخانہ بھی نہیں کررہا ہے، پاکستان کے شہری جہاں پر بھی ہوں ان کی مدد حکومت کا فرق ہے، دفتر خارجہ کو اس سارے معاملہ کی تحقیقات کرنا ہوگی۔
تازہ ترین