• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کا یہ انکشاف کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کیخلاف مشترکہ میکانزم تشکیل دینے کیلئے بات چیت کررہے ہیں اور آئندہ ہفتے اس پر اتفاق رائے متوقع ہے، خطے میں پائیدار امن کیلئے یقیناً ایک نیک فال ہے۔مشیر خارجہ نے اسلام آباد میں یکم مارچ سے شروع ہونیوالے اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سے گزشتہ روز منعقد کی گئی پریس کانفرنس میںاس معاملے کی کچھ تفصیلات پر روشنی ڈالی۔ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان اور افغانستان دونوں جانتے ہیں کہ دہشت گرد ہمارے مشترکہ دشمن ہیں اور دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے باہمی تعاون ضروری ہے۔لہٰذا ہم ایک مشترکہ میکانزم پر بات چیت کررہے ہیں۔‘‘یہ پیش رفت اس بنا پر خصوصاً نہایت حوصلہ افزاء ہے کہ اب تک دونوں ملک اپنی سرزمین پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا الزام بالعموم ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں ماہ رواں کے وسط میں دہشت گردی کی نئی لہر کے ابھرنے کے بعد جس میں سو سے زیادہ شہری لقمہ اجل بنے ،یہ معاملہ ازسرنو اٹھا ۔دہشت گردی کی کارروائیوں کے افغانستان سے کنٹرول کیے جانے کے شواہد سامنے آنے کے بعد پاکستان نے فوری طور پر باہمی سرحدیں بند کردیں اورپاکستان میں ہونیوالی کارروائیوں میں ملوث 76دہشت گردوں کی فہرست افغان حکام کے حوالے کرکے انہیںپاکستان کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا ۔جواباً افغانستان نے 85 دہشت گرد وں اور32 تربیتی مراکز کی فہرست پاکستانی حکام کو فراہم کی اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ الزام تراشی کے اس کھیل کا جاری رہنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ہوشمندی کا تقاضا یہی تھا کہ دونوں ملکوں کی قیادتیں اپنے اپنے ملکوں میں پائیدار امن اور استحکام کیلئے افہام و تفہیم سے کام لیں اور یہ امر نہایت اطمینان بخش ہے کہ دونوں ملکوں نے یہی راستہ اختیار کیا اور فوج، خفیہ معلومات اور سیاسی سطح پر باہمی تعاون کے فروغ کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کی تجاویز پر خاموشی سے غور وخوض شروع کردیا۔مشیر خارجہ کے مطابق کہ پاکستان نے اپنی تجاویز افغانستان بھیج دی ہیں اور اس سلسلے میں وہ افغان حکومت کے مشیر برائے قومی سلامتی سے رابطے میں ہیں۔سرتاج عزیز نے توقع ظاہر کی ہے کہ اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران دہشت گردی کے خلاف پاک افغان مشترکہ میکانزم کی کسی حتمی شکل پر اہم پیش رفت ہوگی۔کانفرنس میںافغان وزیر خارجہ کی شرکت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے تاہم بہتر ہوگا کہ صدر اشرف غنی تنظیم کے دوسرے کئی رکن ملکوں کے سربراہوں کی طرح کانفرنس میں شرکت کیلئے خود اسلام آباد آئیں۔ صدر غنی کی آمد ایک طرف افغانستان کی تعمیر و ترقی میںاقتصادی تعاون تنظیم کی بہتر شرکت کی راہ ہموار کرنے کا سبب بنے گی اور دوسری طرف اس کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف پاک افغان مشترکہ میکانزم کی حتمی تشکیل جلد ممکن ہوسکے گی۔دہشت گردی کیلئے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا بھرپور مظاہرہ آپریشن ضرب عضب اور اب آپریشن ردالفساد کی شکل میں ہورہا ہے۔پنجاب میں رینجرز نے چند روز میں دو سو کارروائیاں کی ہیں جبکہ کراچی سمیت پورے ملک میں آپریشن جاری ہے۔سانحہ سیہون کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ سندھ نے گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے۔لیکن یہ بہرحال حقیقت ہے کہ جب تک پاکستان اور افغانستان مکمل باہمی تعاون کے ساتھ دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کی کوششیں نہیں کریں گے، اس وقت تک دہشت گردوں کو ایک ملک میں بیٹھ کر دوسرے ملک میں کارروائیاں کرنے کی سہولت حاصل رہے گی۔لہٰذا دہشت گردی کے خلاف پاک افغان مشترکہ میکانزم کو جلد از جلد عملی شکل دینا دونوں ملکوں کی سلامتی اور استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔

.
تازہ ترین