• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچپن بلکہ لڑکپن میں ایک سے زیادہ اکٹھے ہو کر حملہ آور ہوتے تو عموماً یہ کہا جاتا تھا کہ ’’مرد ہو تو ایک ایک کرکے آئو‘‘ لیکن اگر ایک سے زیادہ موضوعات اکٹھے ہو کر کالم نگار پر یلغار کر دیں تو وہ بیچارہ بیک وقت ان سب سے نمٹنے پر مجبور ہوتا ہے ۔آج کا پہلا موضوع جو گزشتہ کئی روز سے مجھے تنگ کر رہا ہے، کراچی میں شروع ہونے والا شوکت خانم کینسر ہسپتال ہے جس کی فنڈریزنگ کے سلسلے میں ٹی وی چینلز پر چلنے والے اشتہار نے میری مت مار دی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے مجھے چڑچڑا بنا دیا ہے ۔ظاہر ہے اشتہار کا ماڈل خود عمران خان ہے جس سے کہلوایا گیا ہے ۔’’کراچی میں شوکت خانم ہسپتال کی سنگ بنیاد ’’رکھی‘‘ جا رہی ہے ‘‘اردو سپیکنگ لوگوں کے شہر میں اردو کے ساتھ یہ زیادتی کم از کم میرے لئے تو ناقابل برداشت ہے ۔نجی ٹی وی چینلز اردو کے ساتھ ہجوں اور تلفظ کے حوالے سے جو ’’دہشت گردی‘‘ فرما رہے ہیں وہی زبان بگاڑنے کیلئے بہت کافی تھی کہ یہ اشتہار نہلے پہ دہلہ بن کر دہلائے دے رہا ہے ۔کبھی کبھار ہجے یا تلفظ کی غلطی مجھ سے بھی ہو جاتی ہے جس پر برادر محترم شکیل عادل زادہ صاحب سے ڈانٹ کھا کر سیدھے ہو جاتے ہیں لیکن اس اشتہار میں تو عمران خان سے ’’سنگ‘‘ کی جنس ہی تبدیل کرا دی گئی ہے ۔بھلے مانسو! سنگِ بنیاد ’’رکھی ‘‘ نہیں ’’رکھا‘‘ جاتا ہے۔ بنیاد کا پتھر مونث نہیں مذکر ہوتا ہے ۔مرزا غالب کہتے ہیںمیں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدسنگ اٹھایا تھا کہ سریاد آیاشاید مرزا کا ریختہ سے رشتہ کمزور تھا ورنہ فرماتےسنگ ’’اٹھائی ‘‘ تھی کہ سر یاد آیایہی حال ملک سخن کے شہزادے شکیب جلالی کا ہے جو کہتے ہیںدیکھ اے دیدہ تر یہ تو مرا چہرہ ہےسنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرےممکن ہے ’’بارش‘‘ کی جگہ ’’پانی‘‘ کی دھار ہو لیکن میرا فوکس فی الحال صرف ’’سنگ‘‘ کی جنس پر ہے جس کی ڈھیروں مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن اس طرح تو یہ اکیلا موضوع ہی پورا کالم کھا جائے گا۔گزارش صرف اتنی ہے کہ نجی ٹی وی چینلز نہ سہی، اشتہاری ایجنسیاں ہی تھوڑا سا لحاظ کر لیں کہ بچوں کی اردو پہلے ہی ملکی معیشت جیسی ہے، اوپر سے ایسا اشتہار جس کا ’’ماڈل‘‘ بھی مقبول ترین سابق کھلاڑی ، کپتان اور آج کا سیاست دان عمران خان ’’پاناما‘‘ ہے۔دوسری خبر ان خبروں میں سے ایک ہے جنہیں پڑھ کر میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ اخلاقی دیوالیہ پن، بے حسی، انسان دشمنی اور بے شرمی کی اس سے زیادہ انتہا نہیں ہو سکتی اور اس خبر سے زیادہ نیچ اور گھٹیا خبر دیکھنے کو نہیں ملے گی لیکن بدنصیبی اور بے بسی ملاحظہ ہو، دوچار ہفتوں بعد پھر کوئی ایسی خبر سامنے آتی ہے جو سارے پچھلے ریکارڈ توڑ دیتی ہے ۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ لائف سیونگ ڈرگز یعنی زندگی بچانے والی ادویات بھی تھرڈ کلاس، تھرڈ ہینڈ زنگ آلود مشینوں پر تیار کی جاتی ہیں جو زندگی بخشنے کی بجائے زندگی چھین لیتی ہیں ۔مریض کو بہتر کرنے کی بجائے اس کی حالت بدتر کر دیتی ہیں ۔کیا یہ لوگ دہشت گردوں سے کم ہیں جو عالمی سطح پر منظور شدہ سٹینڈرڈز کی بجائے بھارتی کارخانوں میں عام لوہے سے تیار کردہ گھٹیا سستی ترین مشینری امپورٹ کرکے چند ٹکوں کیلئے ہم وطنوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ لوگ سیرپ، ٹیبلٹ اور انجیکشن وغیرہ بھی عام جراثیم زدہ پانی کے ان پائپوں سے تیار کرتے ہیں جن پر کائی یا فنگس پائے جاتے ہیں۔جب بھی ایسی خبر پڑھتا ہوں، عباس اطہر مرحوم یاد آتے ہیں کہ آپ نے کہا تھا’’اے ماں! تو نے مجھے کن زمانوں اور کن زمینوں پر جنم دیا ‘‘عام پاکستانی کسی کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔اوپر سے لیکر نیچے تک بھوکے بھیڑیوں کا اک ہجوم اسے ہر طرف سے نوچ رہا ہے یا شاید ہم سب ہی ایک دوسرے کیلئے انسانوں کی بجائے مختلف قسم کے اسلحہ میں تبدیل ہو چکے ہیں حالانکہ ہم وہ تھے جن کے بارے فرمایا .....اک جسم کی مانند ہیں جس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچے گی تو پورا جسم درد محسوس کرے گا(مفہوم)یہ کیسا جسم ہے جس کے اعضاء ایک دوسرے کو نیست ونابود، تباہ وبرباد اور غارت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دکھ یہ کہ یہ سب کچھ پاکستان تک محدود نہیں، پورے عالم اسلام تک لامحدود ہے اور محدود ذہنوں کے فکری بونے اور بوزنے اس عظیم المیہ کو ’’اغیار کی سازش ‘‘ قرار دے کر زمینی حقائق اور زندہ تاریخ سے فرار حاصل کرتے ہیں حالانکہ ہم سب کو چاہئے ایک دوسرے کو آئینے دکھائیں، زہریلی سچائیاں بتائیں، اجتماعی غلطیوں نہیں بلنڈرز کی نشاندہی کریں، ذاتی کمزوریوں ، کجیوں، بدصورتیوں سے آگاہ کریں، ایک دوسرے کو شرم غیرت دلائیں لیکن یہاں تو ایک دوسرے کو گلوری فائی اور گلیمرائیز کرنے کا مکروہ مذموم کاروبار ہی ختم نہیں ہو رہا ۔قاتل بھی خود مقتول بھی خود، غازی بھی خود شہید بھی خود، ظالم بھی خود مظلوم بھی خود،ایک اللہ، ایک قرآن، ایک رسول ؐ، ایک منزل، ایک مقصد، ایک زندگی ، ایک موت اور اتنے بیشمار لاتعداد ہم جو ایک محلے تو کیا ایک گلی میں بھی متحد نہیں تو پھر شکوہ کیسا؟ شکایت کیسی ؟ حریفوں سے گلے کیسے کہ جن سے ازلی ابدی مقابلہ ہے وہ تمہاری پھپھی دے پتر ہیں کہ غلبہ کے کھیل میں تو بھائی بھائی کے ساتھ نہیں ہوتا، یہ تو صرف اور صرف ایک سچا معصوم پاکیزہ مومن ہی ہو سکتا ہے جو خود پیاسا بھی مر رہا ہو تو پانی کی چھاگل کو دوسرے پیاسے بھائی کی طرف منتقل کرکے خود مر جاتا ہے ۔ہم تو اپنے پیاسوں کو اپنے پسینے کی بوند دینے کے روادار بھی نہیں ہم ایک دوسرے کو ملاوٹی خوراک، جعلی دوائوں، ناجائز قبضوں، گھوسٹ سکولوں، رشوتوں، کمیشنوں، کک بیکوں وغیرہ کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں ۔قدم قدم پر ’’پانامے‘‘ ہمارے پائوں کی زنجیر تو تقدیر سے شکوہ کیسا ؟خدا کے واسطے اپنے دشمن باہر نہیں ،اپنی صفوں میں تلاش کرو جو باہر کے دشمنوں سے کروڑ گنا زیادہ مہلک اور خطرناک ہیں ۔

.
تازہ ترین