• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فروری 16 کے روز سہون شریف میں بدترین دہشتگردی کا واقعہ ہوا ۔ چند روز بعد 20 فروری کے مختلف اخبارات نے صفحہ اول پر سہون شریف درگاہ کے احاطہ میں پاکستان کی مشہور رقاصہ شیما کرمانی کی دھمال ڈالتے ہوے تصورشائع کی اور اس عمل کو پاکستان کے لبرل اور سیکولر طبقے نے خوب سراہا۔ پاکستان کے ایک بڑے انگریزی روزنامہ نے اس تصویر کا caption یہ دیا :’’Classical dancer Sheema Kirmani performs dhamal at the shrine of Lal Shahbaz Qalandar on Sunday‘‘ (ترجمہ۔ کلاسیکل ڈانسر شیما کرمانی لعل شہباز قلندر ؒکے مزار پر اتوار کے روز دھمال ڈالتے ہوئے)۔ اُسی روز جنگ اخبار میں اپنے کالم ’’دمادم مست قلندر‘‘میں حامد میر صاحب نے لکھا: ’’کئی صدیاں قبل سندھ کے علاقے سہون میں ناچنے گانے والی عورتوں کے ایک محلے میں حضرت لال شہباز قلندرؒ نے ڈیرہ لگایا تو آس پاس رہنے والے کچھ مسلمان بھی حیران رہ گئے۔ اس محلے میں ہندوئوں کی اکثریت تھی۔ ناچنے گانے والیاں بھی ہندو تھیں جن کا دھندا سہون کے حاکم کی بدانتظامی اور ناانصافی کے باعث سہون میں اندھیر نگری اور چوپٹ راج تھا۔ لال شہباز قلندرؒ کی یہاں آمد کے بعد ناچ گانے والیوں کا دھندا بھی چوپٹ ہو گیا۔ لال شہباز قلندرؒ اور ان کے مریدوںکی مختصر سی جماعت نے نہ تو یہاں ناچنے گانے والیوں کو کچھ کہا اور نہ ہی سر شام دور دور سے آنے والے تماش بینوں کو روکا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قلندر کے آنے کے بعد اس محلے میں تماش بینوں کا آنا خود بخود بند ہو گیا۔ ناچنے گانے والیوں کو سمجھ آ گئی کہ یہ سب لال شہباز قلندر ؒ کی وجہ سے ہوا۔ یہ عورتیں اس قلندر کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہیں سہون سے کہیں اور چلے جانے کی درخواست کی۔ قلندر نے جواب دیا کہ انہوں نے تو کسی کو نہیں روکا لہٰذا وہ کہیں نہیں جائیں گے۔ اب یہ عورتیں چوپٹ راجہ کے پاس شکایت لیکر پہنچیں اور کہا کہ ایک قلندر ان کے محلے میں آ بیٹھا ہے اسے وہاں سے نکالا جائے۔ چوپٹ راجہ نے لال شہباز قلندرؒ کو پہلے انعام و اکرام کے ذریعہ سہون چھوڑنے پر آمادہ کیا جب بات نہ بنی تو پھر طاقت استعمال کی لیکن قلندر کے آگے اسکی طاقت بھی ماند پڑ گئی۔ چوپٹ راجہ زلزلے میں مارا گیا جس کے بعد تمام ناچنے گانے والی عورتیں حضرت شہباز قلندرؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئیں........‘‘چند روز قبل محترم مفتی منیب الرحمن نے سہون شریف میں ہونے والی دہشتگردی کے واقع کی پرزور مذمت کرتے ہوئے دہشتگردوں کو اسلام، انسانیت اور ملک و وطن دشمن قرار دیتے ہوئے دھمال کے متعلق کچھ یوں لکھا: ’’ہمارے نزدیک دھمال اور مردوزن کے مخلوط رقص کاہماری دینی روایات سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ اس کا شرعی جواز ہے۔ اس کلچر کی وجہ سے آوارہ منش اور نشے کے لوگ وہاں آتے ہیں اور اس کا تصوّف و روحانیت اور عرفان و احسان سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ اس کی ضد ہے۔ اسی طرح اکابر علمائے کے نزدیک عورتوں کو مزارات پر نہیں جانا چاہیے اور موجودہ خرابیوں کو دیکھا جائے تو پابندی کی حکمت سمجھ میں آتی ہے۔ محکمہ اوقاف اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ مزارات پر بے اعتدالیاں ہو رہی تھیں اور بعض جگہ سجادگان اور مزارات کے متوّلی اپنے مفادات کے لیے ان غیر شرعی بے اعتدالیوں کا سدّباب نہیں کرتے تھے۔ لیکن اب اوقاف کے ذمہ داران نے ان کی جگہ لے لی ہے اور صورت حال پہلے سے ابتر ہو چکی ہے......... سو مزارات کے نظام میں اصلاح کی شدید ضرورت ہے اور اس کے لیے اہلسنت و جماعت کے ثقہ علماء کا ایک نگران بورڈ بنانا چاہیے۔ اگر کوئی وقف اہل تشیع کا ہے، تو اس کا انتظام اُن کے علماء کی نگرانی میں دیا جا سکتا ہے۔‘‘ حامد میر نے تاریخ کے حوالہ سے جو لکھا اُس کے مطابق حضرت لال شہباز قلند نے ناچنے گانے والیوں کے دھندے کو اپنے کردار اور عمل کی بنا پر ٹھپ کر دیا تھا اور سب مسلمان ہو گئیں۔ نہ کسی سے کوئی زبردستی کی نہ کسی کو مارا گیا۔ مفتی منیب الرحمن صاحب نے دہشتگردی کو اسلام دشمنی اور ملک و قوم کے خلاف قرار دینے کے ساتھ ساتھ مزارات پر دھمال اور مردوزن کے مخلوط رقص کو شرعی طور پر مکمل رد کیا اور ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے مزارات کے نظام میں اصلاح کی شدید ضرورت پر زور دیا۔ دوسری طرف لبرل اور سیکولرز کے ایک مخصوص طبقہ نے اس دہشتگردی کے واقع کے بعد دھمال اور مرد و زن کے مخلوط رقص کو تقویت دینے کے لیے سہون شریف درگاہ کے احاطہ میں دھمال کا اہتمام کیا جس میں ملک کی صفحہ اول کی رقاصہ کو بلایا گیا۔ یہ سب لکھنے کا میرا مقصد قارئین کرام کی توجہ اس طرف دلوانا تھا کہ وہ خود سوچیں کہ اسلام کے نام کو غلط استعمال کر کے دہشتگردی کرنے والوں نے سب سے زیادہ نقصان کس کا کیا اور کس کے در اصل وہ ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں؟؟؟

.
تازہ ترین