• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردوں کیخلاف پاکستان میں ایک اور ملٹری آپریشن شرو ع ہو چکا ہے، جسے آپریشن ’’ ردالفساد ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ آپریشن اس وقت شروع ہوا ہے، جب آپریشن ضرب عضب جاری تھا، جسے دنیا بھر میں غیر روایتی جنگ کی سب سے زیادہ کامیاب مہم قرار دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ رد الفساد ‘‘ کیا آخری ملٹری آپریشن ہو گا ؟ اس آپریشن کے جو مقاصد بیان کئےگئے ہیں، ان سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ فیصلہ کن ہو گا کیونکہ اس آپریشن کے اہداف میں باقی ماندہ دہشت گردوں کا خاتمہ اور سابقہ یا جاری ملٹری آپریشنز کی کامیابیوں کو مضبوط بنانا ہے لیکن 2002 کے بعد ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ تمام آپریشنز کامیاب تو ہوئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے رحجانات میں بھی اضافہ ہوا۔ آج بھی یہی صورت حال ہے کہ انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ ماضی میں بھی بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے باعث ایک کے بعد دوسرے آپریشن کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس تناظر میں یہ سوال زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ ’’ ردالفساد ‘‘ کیا آخری ملٹری آپریشن ہو گا ؟
نائن الیون کے واقعہ کے بعد پاکستان میں جاری دہشت گردی میں شدت آ گئی اور یہ منظم انداز میں ہونے لگی ہمارے ملک میں دہشت گردی جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے شروع ہو گئی تھی لیکن ہماری ریاست یہ تعین نہیں کر سکی تھی کہ دہشت گردی کون کر رہا ہے۔ دہشت گرد نامعلوم تھے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے دنیا کو ’’ تہذیبوں کے تصادم ‘‘ کے نظریئے کی بنیاد پر چلانا شروع کیا اور مذہبی انتہا پسندی کی اصطلاح استعمال کی۔ امریکی نیو ورلڈ آرڈر کیلئے یہ ضروری تھا کہ مسلم ممالک میں انتہا پسند، مسلح اور دہشت گرد تنظیمیں موجود ہوں۔ پاکستان اور افغانستان میں ایسی تنظیموں کو پروان چڑھنے یا پروان چڑھانے کے ایسے حالات موجود تھے، جن کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں استعمال کرنے کیلئے پاکستان میں حکمران بنایا گیا اورذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے مہم چلائی گئی۔افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف پاکستان میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ موجود تھا، جسے ڈالرز کے ذریعہ فنڈنگ کرکے ’’ نرسریز ‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے دیگر سامراجی اتحادیوں کے مقابلے میں اشتراکی بلاک جیسا کوئی بڑا دشمن نہیں تھا لیکن انہوں نے اپنا عالمی ضابطہ نافذ کرنے کیلئے عالم اسلام کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور افغان جنگ میں امریکہ کی اتحادی انتہا پسند تنظیمیں اس کی دشمن قرار دے دی گئیں لیکن اس مخصوص مائنڈ سیٹ اور بیانیہ کی عالمی مارکیٹ میں قیمت مزید بڑھ گئی۔ دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ کو 16 سال ہو گئے ہیں او راس کے نتیجے میں انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ مضبوط ہوئی ہیں۔ ان کی نرسریز میں ڈالرز کہیں نہ کہیں سے آ رہے ہیں۔
انتہا پسندی والے مائنڈ سیٹ کو بڑھاوا دینے کیلئے عالمی سطح پر ایک مضبوط اور فریب دینے والا نظام قائم ہے۔ امریکی تھنک ٹینکس اور اداروں کی رپورٹس کے مطابق انتہا پسندی اور دہشت گردی کا یہ نظام آئندہ دو عشروں تک کام کرتا رہے گا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں ہماری ہیئت مقتدرہ اپنے بیانیہ کو مصنوعی طور پر رد کرتی رہی لیکن دہشت گردی کی تباہ کاریوں نے اسے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں دھکیل دیا۔
ان حقائق کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج نے اس عرصے میں دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی اپنی اور حقیقی جنگ لڑی۔ 2002ء میں سب سے پہلے فاٹا میں آپریشن المیزان شروع کیا گیا۔ یہ آپریشن 2006ء تک جاری رہا کیونکہ افغانستان میں تورا بورا کی جنگ کے بعد طالبان اور القاعدہ نے فاٹا میں اپنے ٹھکانے قائم کئےتھے۔ یہ آپریشن فوجی حکمت عملی کے طور پر انتہائی کامیاب رہا۔ دہشت گردوں کو وہاں سے بھاگنا پڑا لیکن وہ دیگر علاقوں میں پھیل گئے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ 2006ءسے 2014 ء تک سوات سمیت فاٹا کے مختلف علاقوں باجوڑ، جنوبی وزیرستان، کرم ایجنسی وغیرہ میں درجنوں ملٹری آپریشنز کئے گئے۔ ان میں آپریشن ’’ راہ حق، آپریشن شیر دل، آپریشن زلزلہ، آپریشن صراط مستقیم، آپریشن راہ راست، آپریشن راہ نجات اور آپریشن کوہ سفید ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ کچھ آپریشنز میں مقامی آبادی کا انخلاء ہوا۔ سوات میں تاریخ کا سب سے بڑا انخلاء ہوا۔ ان آپریشنز میں نہ صرف کامیابی ملی بلکہ لوگوں کو دوبارہ اپنے اپنے گھروں میں بھی آباد کیا گیا۔ جدید تاریخ میں اپنی سرزمین پر افواج کو غیر روایتی یا گوریلا جنگوں میں اس طرح کی کامیابی کی مثال نہیں ملتی لیکن دہشت گرد پھر پورے ملک میں پھیل گئے۔ جنرل راحیل شریف نے جون 2014میں آپریشن ضرب عضب کی منظوری دی، جس کا دائرہ کار پورا ملک تھا۔ یہ آپریشن بھی دنیا بھر میں کامیاب تصور کیا جاتا ہے۔ اس آپریشن میں 3400سے زائد دہشت گرد مارے گئے اور 22 ہزار سے زیادہ گرفتار ہوئے۔ دہشت گردوں کے 837 سے زیادہ ٹھکانے تباہ کئے گئے۔ ان آپریشنز میں مسلح افواج اور دیگر سیکورٹی فورسز نے بھی بہت قربانیاں دیں۔ دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روک دیا گیا ہے اور ان کے نیٹ ورک توڑ دیئے گئے ہیں لیکن دہشت گردوں نے اب بڑے شہروں میں کارروائیاں شروع کردی ہیں اور وہاں اپنے ٹھکانے بنا لئےہیں۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد آپریشن ’’ ردالفساد ‘‘ شروع کیا گیا۔
جب تک انتہا پسندی والے مائنڈ سیٹ کا خاتمہ نہیں ہو گا، تب تک ملٹری آپریشنز کی ضرورت رہے گی۔ اب تو پوری دنیا میں پڑھے لکھے نوجوان اس مائنڈ سیٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ رک نہیں رہا۔ پاکستان میں اس مائنڈ سیٹ کو پروان چڑھانے والے طاقتور حلقے ابھی تک موجود ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مائنڈ سیٹ کو پروان چڑھانے والا ایک عالمی نظام موجود ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کی بجائے ریاستی اداروں اور ملک کی مذہبی و سیاسی قیادت کو ایک بار پھر مل بیٹھنا ہو گا اور ایک تجربے کی روشنی میں اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ نیشنل ایکشن پلان میں انتہا پسندانہ مائنڈ سیٹ کے خاتمے کے اہداف کیوں حاصل نہیں کئے جا سکے اور اب یہ اہداف حاصل کرنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ کوشش کی جائے کہ ’’ ردالفساد ‘‘ آخری ملٹری آپریشن ہو۔

.
تازہ ترین