• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’باالعموم تنگ ذہن لوگوں کا کہنا ہے کہ رقص ایک طرح سے خلاف مذہب ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خدا نے ہمیں موسیقی عطا کی۔ نہ صرف وہ موسیقی جو ہم ساز و آواز سے تخلیق کرتے ہیں بلکہ ہر صورت ِحیات میں نہاں موسیقی اور پھر اس (خالق کائنات)نے ہمیں اسے سننے سے منع کردیا۔ کیا انہیں دکھائی نہیں دیتا کہ فطرت خود نغمہ سرا ہے ؟اس کائنات کی ہر شے ایک لے میں محو گردش ہے۔ دل کا دھڑکنا، پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ، کسی طوفانی شب میں ہوا کی آہٹ، آہن گر کی آہن پر ضرب، یا وہ آوازیں جن میں نومولود بچہ رحمِ مادر میں ہوتا ہے، جوش اور بے ساختگی سے ہر ایک شے ایک عالیشان دُھن میں شامل ہے۔ رقص ِدرویشاں بھی اسی ابدی زنجیر کی ایک کڑی ہے۔ بالکل ایسے جیسے ایک قطرے میںپورا قلزم سما جاتا ہے۔ ہمارا رقص اس کائنات کے اسرار کی عکاسی کرتا ہے اور انہیں ڈھانپتا بھی ہے۔ ‘‘
یہ استدلال ہے 13ویں صدی کے درویش شمس تبریز کا جو اپنے عہد کے عظیم صوفی شاعر جلال الدین رومی سے یوں ملے کہ یک جان دوقالب ہو گئے۔ ترکی کی شہرہ آفاق مصنفہ ایلف شفق نے اپنی حالیہ تصنیف میں علم و حکمت اور فکر و تدبر کی بنیاد پر استوار ہونے والی اس لازوال دوستی کی تفصیل بیان کی ہے اور اس کا اردو ترجمہ ایک پبلی کیشنز نے بعنوان ’’چایس چراغ عشق کے‘‘شائع کیا ہے۔ فقہا اور صوفیا کے درمیان فکری اختلاف کی تاریخ تو بہت پرانی ہے اور جب شمس تبریز قونیہ میں جلال الدین رومی کے اشتراک سے رقص کی ایک نئی شکل سماع کے نام سے متعارف کروا رہے تھے تو تب بھی انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ اس دور میں بھی حسن بن صباح کی صورت میں فساد برپا کرنیوالا گروہ موجود تھا اور ’’حشاشین ‘‘ کے نام سے پہچانا جانیوالا یہ گروہ معروف شخصیات کو زہر دیکر قتل کرنے کے حوالے سے دہشت کی علامت بن چکا تھا لیکن اس دور کے فسادیوں اور عصر حاضر کے نام نہاد جہادیوں میں فرق یہ ہے کہ نہتے اور معصوم عوام کو نشانہ نہیں بنایا جاتا تھا۔ صوفیا کی مخالفت، مزارات پر تنقید اور سماع پر اعتراضات کرنیوالے بکثرت پائے جاتے تھے لیکن ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ دھمال ڈالتے اہل تصوف کے خون سے ہولی کھیلی گئی ہو یا پھر مزارات کو شرک و بدعت کا گڑھ قرار دیتے ہوئے منہدم کر دیا گیا ہو۔
درویش کہتے ہیں کہ دھمال اور سماع تو ایک وجدانی کیفیت اور خود سپردگی کی شکل ہے۔ یہ پوری کائنات حالتِ سماع میں ہے۔ زمین، آسمان، ستارے، سیارے، سورج، چاند سب اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ سب محوِرقص ہیں تو رقصِ درویش پر اعتراض کیوں؟دھمال تو عارف کا وظیفہ حیات، صوفی کا فلسفہ نجات، درویش کا سرمایہ حیات اور ملنگ کی مدحت ونعت ہے۔ سماع تو شمع کا سوز، پروانے کا ساز، مسافران طریقت کا راز، اہل دل کا گداز، ازل کی صبح، ابد کی شام، آبشار محبت کا ترنم، دریائے عقیدت کی لہر، قلزم عشق کی موج، علم و عرفاں کا نقطہ اتصال، خود سپردگی کے ماہ و سال اورراہروان ِ طریقت کا زاد راہ، جمع پونجی اور منزلِ مُراد کا چراغ ہے۔ درویش اپنی ذات کی نفی کرنے کیلئے بے کیف رنگوں کا انتخاب کرتا ہے۔ شہد رنگ کی ٹوپی، لوحِ مزار کی علامت ہے۔ لمبا سفید چغہ، کفن اور سیاہ فرغل، قبر سے منسوب ہیں۔ ڈھول کی تھاپ، رباب اور نے کی صدا پر درویش دھمال ڈالتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کنول کے پھول محوِ رقص ہیں یا پھر سورج مکھی کے پھول اپنے محبوب یعنی آفتاب کی طرف لپکتے چلے جاتے ہیں۔ محفل سماع کے دوران یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پوری کائنات محود گردش ہے اور پھر وحدت و یکتائی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ مگر پھر بھی ان انسان دشمنوں کو اس سے شرک کی بو آتی ہے۔
بخدامیں خانقاہی نظام کا طرفدار ہوں ناں کسی گدی نشین کا پیروکار، ترک دنیا کا قائل ہوں ناں رہبانیت کی طرف مائل، تصوف کی جستجو ہے ناں راہ طریقت اپنانے کی آرزو، مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان درباروں اور مزاروں کا رُخ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد معاشرے کے مجبور و مقہور اور لاچار و بے بس لوگوں کی ہوتی ہے۔ وہ ستائے اور تنگ آئے ہوئے افراد جنہیںزمانے نے ٹھکرا دیا، کسی اپنے نے نظروں سے گرادیا، مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکتے ان مسافروں کیلئے امید کا چراغ جنہیں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، کوئی امید بر نہیں آتی۔ مصیبت کے مارے اس توقع پر چلے آتے ہیں کہ شاید ان کے دل مضطرب کو قرار آجائے، شایدسوکھے ہوئے شجر حیات پر برگ وبار آجائے اور ان کی اجڑی ہوئی دنیا میں پھر سے بہار آجائے۔ یہ وہ درگاہ ہے جہاں مسلک تو کجا مذہب کی تفریق بھی باقی نہیں رہتی۔ تف ان پر جنہیں دکھ درد کے ماروں پر شرک کا گمان ہوتا ہے اوراس گمان کی بنیاد پروہ محبت و الفت بانٹنے والوں کے خلاف نفرت و دشمنی کے فتوے تقسیم کرتے ہیں۔ جانے کس مٹی سے بنے ہیں وہ لوگ جنہیں امن و آشتی اور محبت و الفت کا پرچار کرنے والوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔
جب بھی کسی دربار پر حملہ ہوتا ہے تو یہ بحث ایک بار پھر زندہ ہو جاتی ہے کہ صوفی اِزم خدا پرستی کی انتہا ہے یا پھر شرک کی ابتدا؟فکر و عمل کی معراج ہے یا جہالت و لاعلمی کی پہلی سیڑھی؟آپ اپنے فہم و فراست کے مطابق فیصلہ کرنے اور ان سوالات کا جواب دینے کا حق رکھتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ جب کسی خود کش حملے کے بعد آپ یہ اعتراضات اور سوالات اٹھاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ بالواسطہ اس گھنائونے فعل کی حمایت کر رہے ہیں یا مظلوم اور ظالم کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ تم چاہو تو خودکش دھماکے کرکے رقص بسمل سے جی بہلائو اور لعل شہباز کے چاہنے والے دھمال ڈالیں تو کفر کے فتوے لگائو۔ یعنی ان خود کش حملہ آوروں کا رقص بسمل تو حلال ہے مگر عارفین کا رقصِ درویش حرام۔

.
تازہ ترین