• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عوام کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اب یہ بل منظوری کیلئے آئندہ ماہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائیگا۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کی تجاویز پر جو متفقہ بل کا ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے اس کے مطابق نو انتخابی قوانین کو ختم کر کے نیا انتخابی قانون بنایا گیا ہے۔ 1۔الیکشن کمیشن کو مکمل انتظامی اور مالی اختیارات دیئے گئے ہیں۔ 2۔کمیشن خود کارروائی کر سکے گا۔3۔پولنگ اسکیم اور انتخابی لائحہ عمل چھ ماہ پہلے مشتہر کر دیا جائیگا تاکہ اگر کسی سیاسی جماعت کے اعتراضات ہیں تو انہیں دُور کیا جا سکے۔ 4۔فارم14کانتیجہ بیک وقت موبائل پر ریٹرننگ آفیسر اور الیکشن کمیشن ہیڈ کوارٹر کو موصول ہوگا۔ جس کیلئے خصوصی موبائل اپیلی کیشن بنائی جائیگی۔ 5۔ہر دس سال بعد نئی انتخابی حلقہ بندیاں بنیں گی۔ 6۔پولنگ ا سٹیشن ایک کلو میٹر کی حدود میں ہوگا۔7۔حساس پولنگ اسٹیشنوںپر کیمرے نصب کئے جائینگے۔8۔اگر شکست کا فرق 5فیصد یا دس ہزار ووٹ سے کم ہوا تو موقع پر دوبارہ گنتی کرائی جاس کے گی۔ 9۔خواتین کا کم از کم دس فیصد ووٹ ڈالنا لازمی ہے ورنہ یہ تصور کیا جائیگا کہ کسی غیر قانونی معاہدے کے تحت خواتین کو ووٹنگ کے عمل سے دُور کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کو اِسے کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔10۔نئے قانون کے تحت سیاسی جماعتیں پابند ہونگیں کہ وہ کم از کم پانچ فیصد ٹکٹ خواتین امیدواروں کو دیں۔11۔یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ نگران حکومت کیلئے بعض حدود و قیود لگائی جائیں وہ ایسے فیصلے نہ کر ے جنکی وجہ سے نئی منتخب حکومت کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے۔
بظاہر یہ انتخابی اصلاحات متفقہ ہیں کیونکہ جس پارلیمانی کمیٹی نے یہ سفارشات مرتب کی ہیں اسمیں ہر پارلیمانی پارٹی کی نمائندگی موجود تھی خواہ اُسکا ایک بھی رکن تھا۔ اس پارلیمانی کمیٹی جس کی سربراہی اسحاق ڈار کر رہے تھے اسکو عوام کی طرف 12سو سے زائد تجاویز موصول ہوئی تھیں۔ کمیٹی کے 75اجلاس ہوئے، جن میں انہیں حتمی شکل دی گئی۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اصل سوال ان پر عملدرآمد کا ہے اور یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ اسوقت ملک میں دو سو سے زائد جماعتیں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں جن میں سے اکثریت کی نمائندگی پارلیمنٹ میں موجود نہیں۔ اُن سے تو تجاویز نہیں لی گئیں اور جس طرح کی اصلاحات کو حتمی شکل دی گئی ہے ان سے لگتا ہے کہ صرف خاص ایسے زاویے سے چیزوں کو لیا گیا ہے کہ ا سٹیٹس کو توڑا نہ جاس کے۔ پھر جتنے لمبے عرصے میں یہ سامنے آتی ہیں اس سے سیاسی جماعتوں کی سنجیدگی کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ پہلے 23جنوری2013ء کو عام انتخابات سے چند مہینے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی اصلاحات کیلئے تجاویز پر مشتمل مسودے کی منظوری دی تھی لیکن پارلیمانی کمیٹی میں اُسکو زیادہ لفٹ نہ کرائی گئی۔ مئی2013ء کو ن لیگ نے حکومت بنائی مگر جون 2014ء کو ایک سال بعد 32رکنی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی بنائی جس نے ڈھائی سال بعد اپنا کام مکمل کیا۔ حالانکہ جولائی 2015ء تک اس کے 35اجلاس ہو چکے تھے اور 70سے 80فیصد کام مکمل کر لیا تھااور عدالت عظمیٰ نے14مئی 2014ء کو انتخابی اصلاحات کے حوالے سے فیصلے میں جلد قانون سازی یا ترمیم کیلئے ہدایت کی تھیں۔
انتخابی اصلاحات کے بل کے ڈرافٹ کا جائزہ لیا جائے تو بعض ضروری پہلوئوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس لئے اس قانون کی منظوری سے پہلے انکو بھی زیر غور لانا چاہئے۔ مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ کسی بھی حلقے میں دس فیصد خواتین کے ووٹ ڈالنے ضروری ہیں۔ اب ووٹ ڈالنا بعد کی بات، پہلے دیکھنا چاہئے کہ اس حلقے میں خواتین ووٹر کااندارج کروایا ہی نہیں جاتا اس لئے قانونی طور پر یہ لازمی قرار دینا چاہئے کہ جس بھی شہری کا شناختی کارڈ بن جائے اسکا بذریعہ نادرا خود کار طریقے سے ووٹر فہرستوں میں اندراج ہو جائے۔ فارم 14کا نتیجہ بیک وقت ریٹرننگ آفیسر اور الیکشن کمیشن ہیڈ کوارٹر میں موبائل کے ذریعے بھیجنے کیساتھ ساتھ متعلقہ امیدوار کے فون پر بھی دیا جانا چاہئے۔ حساس پولنگ اسٹیشنوں پر کیمرے نصب کرنے کی تجویز اچھی ہے لیکن اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ کیمرے نہ صرف نصب ہوں بلکہ ریکارڈنگ بھی کرتے ہوں اور اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر بجلی بھی نہیں ہوتی پھر حساس پولنگ اسٹیشن کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ یہ تجویز کہ سیاسی جماعتیں پابند ہونگیں کہ وہ خواتین کو کم از کم 5فیصد ٹکٹ ضرور دیں کسی صورت قابل قبول نہیں لگتی۔ ایک تو گزشتہ تین اسمبلیوں میں خواتین کی اکثریت ایسی ہے جو کبھی پارلیمنٹ میں بولی تک نہیںپھر سوائے بڑی جماعتوں کے اکثر جماعتوں کے پاس عام سیٹیوں پر الیکشن لڑنے کیلئے خواتین امیدوار نہیں ہونگیں اور بعض سیاسی اور مذہبی جماعتیں بہت کم امیدوار کھڑے کرتی ہیں اب اسمیں 5فیصد خواتین کو وہ کیسے آگے لا سکتی ہیں۔معذور افراد کیلئے پوسٹل بیلٹ کی سہولت تجویز کی گئی ہے۔ لیکن اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے خاموشی ہے۔ اب جس طرح ٹیکنالوجی عام ہوگئی ہے تو انہیں بھی انتخابی عمل میں شامل کرنا چاہئے۔ اسی طرح ایک امیدوار پاکستان کے کسی بھی حلقے سے الیکشن لڑسکتا ہے مگر ووٹر صرف اپنے حلقے میں جا کر ووٹ ڈال سکتا ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ پاکستان کے کسی بھی شہر میں ہو وہ اپنے حلقے کیلئے پاکستان کے کسی بھی شہر میں ووٹ ڈال سکے، اس کیلئے وہ پوسٹل بیلٹ کی طرح الیکشن کمیشن کو پہلے نہ صرف اطلاع کرے بلکہ خصوصی طور پر رجسٹرڈ بھی کروائے۔ اب کچھ پہلو جن کو انتخابی اصلاحات میں نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چند مزید تجاویز جنہیں اس بل کے ڈرافٹ میں شامل کرنیکی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر دھاندلی کے حوالے سے ہمیشہ شکایات رہی ہیں۔ یہ تجویز کافی عرصے سے زیر بحث ہے کہ شفاف انتخابی عمل کیلئے بائیو میٹرک سسٹم اپنانا چاہئے جہاں یہ سسٹم موجود ہے وہاں شکایات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی یہ پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ الیکشن جیتنے والوں کی ایک اکثریت آزاد امیداوروں کی ہوتی ہے جنکا نہ کوئی ایجنڈا ہوتا ہے نہ منشور وہ ہمیشہ حکمراں پارٹی کا حصہ بنتے ہیں اس لئے انکو بھی قانونی طور پر پابند بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ اگر الیکشن جیتنے کے بعد کسی پارٹی میں جاتے ہیں تو انکی رکنیت ختم ہو جائیگی۔ ایک اور تجویزبہت اہم ہے کہ بعض پارٹیاں یا امیدوار چند ہزار ووٹوں سے ہا رجاتی ہیں لیکن پارلیمنٹ میں اُنکی نمائندگی نہیںہوتی۔ اگر ہم واقعتا پارلیمان میں عوام کی نمائندگی چاہتے ہیں تو ہمیںجزوی متناسب نمائندگی کا نظام متعارف کرانا ہوگا۔ اس کیساتھ ساتھ اگر قانونی طور پر سرکاری ملازم کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے تو اسے الیکشن لڑنے کا بھی حق دیا جانا چاہئے۔جبکہ دہری شہریت والوںکوالیکشن جیت کر دوسرے ملک کی شہریت چھوڑنا لازمی ہونا چاہئے۔ اور اب آخرمیں اہم ترین تجویز جس پر پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق نہیں کیا گیا اور وہ ہے آئین کے آرٹیکل —63,62ہرکوئی اس سے ڈرتا ہے لیکن اگر ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا تو پھر کبھی پارلیمنٹ میںاچھے لوگوں کے آنے کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ اگر ہم برطانیہ جیسے ملک میں بھی دیکھیں کہ وہاں ایسا شخص رکن بن سکتا ہے جسکے سیاسی دامن پر کوئی داغ نہ ہو، امریکہ میں کوئی رکن اخلاقی یا معاشی جرم میں ملوث پایا جاتا ہے تو اسے رکنیت سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 63,62کوئی عجوبہ نہیں۔ نیت ٹھیک ہو تو بہتر تبدیلی آسکتی ہے ورنہ اصلاحات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا!

.
تازہ ترین