• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر شخص کی زندگی میں کوئی نہ کوئی لمحہ، کوئی نہ کوئی موڑ، کوئی نہ کوئی وقت ایسا ضرور آتا ہے جو انسان کی قسمت، تقدیر اور حالات بدل دیتا ہے۔ ’’مسٹر آئی نیش‘‘ جاپان گئے تو انہوں نے جاپانی قوم کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ جس کے بعد ان کا کہنا تھا: ’’جاپانی قوم کو سب سے زیادہ متاثر سیاست نے نہیں بلکہ کانٹو کے عظیم زلزلے نے کیا جس میں مشرقی جاپان تہس نہس ہوکر رہ گیا تھا۔ دوسرا انسانی ساخت کا زلزلہ 1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی کا ملبے کا ڈھیر بن جانا تھا۔ پتا چلا زلزلے سے اگر تعمیری ذہن پیدا ہو تو زلزلہ ایک نئی ترقی کا زینہ بن جاتا ہے۔ جب بھی آدمی کی زندگی میں کوئی بربادی کا واقعہ پیش آئے تو وہ اس کو دو امکانات کے درمیان کھڑا کردیتا ہے۔ وہ یا تو اس سے سبق لے کر ازسرِ نو متحرک ہوکر اپنی نئی تعمیر کرتا ہے یا مایوسی اور شکایت کی غذا لے کے سرد آہیں بھرتا ہے۔ کشتی رانی کے مقابلوں میں ’’امریکہ کپ‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اسے ’’امریکہ کپ‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ 138 سال تک یہ کپ امریکہ جیتتا رہا۔
1983ء میں پہلی دفعہ آسٹریلوی ٹیم نے اسے جیت کر دنیا کو حیران کردیا۔ اس سال امریکی ٹیم کی قیادت ’’ڈینس کورنر‘‘ کررہا تھا، لیکن اس نے اس واقعہ سے ہمت نہ ہاری۔ وہ 3 سال ہارتا رہا، مگر چوتھے سال یہ اعزاز دوبارہ جیتنے میںکامیاب ہو گیا۔ اس کی اس جیت کا ایک اہم عامل بے اطمینانی تھی، یعنی یہ احساس کہ تاریخ میں یہ کپ پہلی دفعہ مجھ سے چھینا گیا ہے۔ اس احساس نے اس کو پھر کامیاب کردیا۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پیشوں کے بارے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں فلاں کام ان کی شان کے خلاف ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بھوک اور افلاس سے تنگ آکر دربدر بھیک مانگنا گوارا کرلیتے ہیں، لیکن کام کرنا پسند نہیں کرتے۔اسلام سے پہلے عربوں میں کام نہ کرنے اور کام کو حقیر سمجھنے کی ذہنیت عام تھی، چنانچہ عرب شاعر اپنے حریف کی ہجو کرتے ہوئے پوری شدت سے اس بات کو اچھالتا تھا کہ اس کا مقابل فلاں لوہار کا بیٹا اور فلاں لوہار کا پوتا ہے، لیکن اسلام نے آکر دنیا والوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ روزی حاصل کرنے کے لئے اگر چھوٹے سے چھوٹا پیشہ اختیار کرنا پڑے تو اس میں شرم نہیں محسوس کرنی چاہئے۔ اسلئے کہ یہ تو ہوسکتا ہے پیشہ ور اچھے ہوں یا برے ہوں، لیکن کوئی پیشہ خواہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ سمجھا جائے، اگر اس سے رزق حلال حاصل ہوتا ہے تو وہ برا نہیں ہوسکتا۔ یہ 2006ء کی بات ہے۔ ایک نوجوان نے ہم سے درخواست کی کہ وہ بے روزگار ہے، اگر کوئی کام ہوتو بتادیں۔ ان دنوں ہمیں دفتر کی صفائی وغیرہ کے لئے ایک ملازم کی تلاش تھی، چنانچہ ہم نے رکھ لیا۔ وہ صبح کے وقت صفائی کرتا، اخبارات لاتا، کوئی مہمان آتا تو چائے وغیرہ کا بندوبست کرتا اور پھر پورا دن فارغ اوقات میں وہ گپیں مارتا، اگر کوئی کمپیوٹر مل جاتا تو بیٹھا اِدھر اُدھر کی ویڈیو دیکھتا رہتا۔ وہ تھوڑا بہت اسکول پڑھا ہوا تھا، اس لئے موبائل پر میسج اور انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرتا رہتا۔ اس کی عمر کوئی 24 سال ہوگی۔ ایک دن میں نے اسے کہا کہ عنقریب تمہاری شادی ہوجائے گی۔ پھر بچے ہوں گے، چند سالوں بعد وہ پوچھیں گے کہ بابا! آپ کیا کام کرتے ہو؟ تو تم انہیں کیا یہ جواب دوگے کہ میں صفائی کرتا ہوں۔ میں نے اسے بڑے دردِ دل سے سمجھایا کہ ’’میرے بھائی! تم جو پورا دن موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر بیٹھے وقت ضائع کرتے رہتے ہو۔ میرا آپ کو ایک مشورہ ہے کہ آپ صرف کمپوزنگ سیکھ لیں۔‘‘ یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی۔ ایک سال میں وہ کمپوزر بن گیا۔ پھراس نے ڈیزائننگ سیکھ لی۔ آج اس کا اپنا کمپیوٹر سینٹر ہے۔ آج کل عجیب چلن ہے کہ لوگ خصوصاً ہٹے کٹے نوجوان یا تو اعلیٰ نوکری کے خواہاں ہوتے ہیں یا پھر بھیک مانگتے ہیں اور طرح طرح کے جرائم کے ذریعے حرام مال کماکر عیاشی کرتے ہیں۔ چھوٹے موٹے کام اور محنت ومشقت طلب ملازمت کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ نوجوانوں کو نوکری نہیں بلکہ کام تلاش کرنا چاہئے۔ بہت سے نوجوانوں نے پوچھا ہے، بعض اوقات چھوٹا موٹا کام شروع کرنے کیلئے تھوڑی بہت رقم کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے پاس نہیں ہوتی۔ ایسے میں وہ کیا کریں، کدھر جائیں؟ اس کا بہترین حل قرضِ حسنہ ہے۔ پاکستان میں سینکڑوں ایسے ادارے اور افراد موجود ہیں جو قرضِ حسنہ دیتے ہیں۔
اسلام کے بیسیوں زرّیں اصولوں میں سے ایک ’’اخوت اور بھائی چارہ‘‘ کا اصول ہے۔ قرضِ حسنہ دینے والے اداروں اور افراد کا ماٹو یہی ہے۔ بھائی چارہ اور اخوت ایک عظیم اسلامی روایت کی پیروی کا نام ہے۔ ہمیں یاد ہے آج سے بیس سال قبل سود کی خطیر رقم چھوڑنے کی وجہ سےہمارے ایک جاننے والے بھائی کے گھر جب غربت اور فقروفاقہ نے ڈیرے ڈال دئیے تو انہوں نے دس ہزار روپے قرض لیکر دورانِ تعلیم ہی دھوبی کی دکان کھول ڈالی۔ اللہ نے اس میں برکت دی اور ان کی سفید پوشی کا بھرم رہ گیا۔ وہ محنتی اور ذہین تو تھے ہی لہٰذا وہ شام کے وقت کمپیوٹر کورس کرنے لگے اور پھر وہ اخباروں اور جرائد میں بحیثیت سینئر ڈیزائنر کام کرنے لگے۔ آج وہ ماشاء اللہ لاکھوں میں کھیل رہے ہیں اور دوسروں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ اب تک کئی غریب نوجوانوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرچکے ہیں۔ بیس ہزار کی رقم سے اسٹیشنری کا کام شروع کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں کے لئے کھیل اور تفریح کا سامان بھی رکھا جاسکتا ہے۔
پندرہ بیس ہزار کی رقم سے پھولوں کا کھوکھا اور گاڑیاں سجانے کا کام شروع کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح 18000 کی رقم سے گرمیوں میں آئس کریم کی مشین اور سردیوں میں سوپ کی ریڑھی لگائی جاسکتی ہے۔ موبائل فون کی خریدوفروخت اور ری پیئرنگ کاکام، سائیکل کے پنکچرز کا کھوکھا، انڈا اور پاپ کارن کا ٹھیلا، الیکٹریشن کا سامان اور روٹی پکانے کا تنور لگایا جاسکتا ہے۔ ان چھوٹے موٹے کاموں کو دس سے پچاس ہزار روپے میں شروع کیا یا کروایا جاسکتا ہے۔ حاصل اس سارے کلام کا یہ ہے کہ اگر انسان محنت کرے۔ نوکری تلاش کرنے کی بجائے کام تلاش کرے۔ حلال اور پاکیزہ روزی دینے والے کام میں شرم وعار محسوس نہ کرے، بلکہ ’’حصولِ رزقِ حلال‘‘ کو ’’عین عبادت‘‘ سمجھے تو لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار مل سکتا ہے۔

.
تازہ ترین