• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر ٹرمپ کا اپنے انتخاب کے بعد وزیر اعظم نواز شریف سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے مابین غیر معمولی مسئلہ کشمیر کےحل کی خواہش کا اظہار کرنا، اس امر کی جانب واضح اشارہ ہے کہ کشمیر ایک بھولی بسری داستان نہیں اس چنگاری سے خاکستر جہاں برصغیر ہو سکتا ہے وہیں یہ عظیم انسانی المیہ عالمی نظام کو بھی تہہ و بالا کر کے رکھ سکتا ہے۔ پاکستان امن کا خواہش مند ہے اور اپنے قدم اس حد تک بڑھا سکتا ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف مودی کی حلف برداری میں شرکت کر کے عالمی برادری کو یہ پیغام دے چکے ہیں کہ پاکستان قیام امن کا طلبگار ہے۔ مسئلہ بھارت کی جانب سے ہے۔ بین الاقوامی برادری کو اپنا ہم خیال بنانے کی غرض سے یہ بڑا زبردست اقدام تھا۔ میں نے پاکستان اسٹڈی سینٹر پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام کشمیر پر ایک بین الاقوامی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اپنے مقالے World Vision on Kashmir میں خیالات کا اظہار کیا۔ سیمینار کے روح رواں ڈاکٹر مسرت عابد اور ڈاکٹر امجد مگسی نے چینی دانشوروں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ وہاں اپنی تقریر میں میں نے یاد دلایا کہ اوباما نے بھی اپنے انتخابات کے بعد ایک امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کشمیر کے تنازع کے حل میں کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اور بل کلنٹن نے مشاورت کی بات کی تھی کہ وہ پاک بھارت تعلقات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ امریکی میڈیا میں تو ان خبروں نے بھی گردش کی تھی کہ صدر اوباما بل کلنٹن کو کشمیر پر خصوصی نمائندہ مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ بات واضح ہے کہ اس کی حساسیت امریکہ پر عیاں ہے۔ معاملہ صرف امریکہ تک محدود نہیں گزشتہ سال اٹلی کی وزیر دفاع اس دوران پاکستان تشریف لائیں جب بھارت چھروں سے کشمیریوں کو اندھا کر رہا تھا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ مذمت کی بلکہ اس معاملہ کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھانے کا بھی بیان دیا۔2015ء میں جرمنی کے وزیرخارجہ نے پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کے دل کی بات کی۔ برازیل کے سفیر نے گزشتہ سال اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا کہ برازیل بین الاقوامی قوانین کا اطلاق اور پر امن تصفیہ چاہتا ہے۔ گزشتہ ماہ ہی کی بات ہے کہ برطانوی دارلعوام کی کمیٹی میں اس حوالے سے زبردست بحث مباحثہ رہا۔ بھارتی نژاد رکن پارلیمنٹ مسٹر شرما ہی صرف منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے رہے ورنہ دیگر تمام اراکین نے بحث میں حصہ لیا اور کشمیر میں جاری بھارتی ہٹ دھرمی مزید بے نقاب ہوتی چلی گئی۔ اس سے قبل 2010ء اور 2014ء میں بھی برطانوی دارالعوام میں اس نوعیت کی بحث کی گئی تھی۔ یہ معاملہ صرف ان چند طاقتوں تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا میں اس حوالے سے دیگر ممالک کی پارلیمان بھی سرگرم عمل ہے۔ مثلاً ناروے نے اپنی پارلیمان کی کشمیر کے حوالے سے خصوصی کمیٹی قائم کر رکھی ہے۔
ایران اس حقیقت سے اچھی طرح آشنا ہے کہ پاکستان اور ایران کی سلامتی کے بہت سارے تقاضے باہم جڑے ہوئے ہیں۔ اس لئے جب ہارٹ آف ایشیا کانفرنس، امرتسر میں گزشتہ سال بھارت نے افغانستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ مل کر سازش کی کہ پاکستان اور اس کے موقف کو غیر اہم ثابت کر دیا جائے تو اس سب کی ہوا ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے امرتسر کی سرزمین پر کھڑے ہو کر کشمیر کے حوالے سے ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے اکھاڑ دی۔ بھارت کی سرزمین پر اس کے ’’اٹوٹ انگ ‘‘کے حوالے سے ثالثی کی گفتگو کرنا بھارت کی صریحاً ناکامی کے علاوہ اور کچھ نہیں کہلا سکتا۔ چین اور ترکی کا موقف تو بالکل واضح ہے بلکہ اگر ہم اوآئی سی کے اعلامیہ ترکی کا مطالعہ کریں تو بھارت کی کمزور سفارتی حیثیت بالکل عیاں ہو جاتی ہے۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر کشمیر پر ریفرنڈم کی بات کی۔ او آئی سی کے حوالے سے میں اس بات سے مکمل اختلاف رکھتا ہوں کہ وہ ایک غیر اہم تنظیم ہے۔ او آئی سی کے غیر اہم ہونے کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وہ کوئی عملی قدم اٹھانے کے قابل محسوس نہیں ہوتی۔ اگر یہی دلیل کسی تنظیم کو بے اثر ثابت کرنے کے لئے مئوثر ہے تو یہ بدرجہ اولیٰ اقوام متحدہ کے ادارے پر صادق آئے گی۔ اور باقی تنظیمیں بھی اس سے مبرا محسوس نہیں ہوں گی۔ آسٹریلیا کی خاتون رکن پارلیمنٹ نے وہاں کی پارلیمنٹ میں بھارتی استبداد کے حوالے سے بحث کا آغاز کروایا جب بھارت برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں پر پیلٹ گن کا استعمال کر کے ان کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نابینا کر رہا تھا تو ساری دنیا اندھی نہیں ہو چکی تھی۔ نوم چومسکی جیسے دانشور کھلے خط تحریر کر رہے تھے اور بھارت کے کشمیر سے نکل جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کینیڈین پیس الائنس اس ظلم کے خلاف متحرک تھے۔ اس تمام گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ یہ تصور قائم کر لینا کہ بھارت اپنے حجم اور بزعم خود معاشی ترقی کے سبب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ بھارت دہشت گردی کا پروپیگنڈہ کر کے دنیا کو اب بھی کشمیر کے حوالے سے خوفزدہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے مکمل عدم برداشت کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ مگر اس رویہ کی درست تصویر دنیا کے سامنے لانے میں مزید متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اکسیر ثابت ہو سکتا ہے۔

.
تازہ ترین