• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو وہاں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تاہم ریپبلکن پارٹی کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخای مہم کے دوران اور بعدازاں صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد جس طرح سے مسلم مخالف پالیسیاں اختیار کیں انہیں امریکی سوسائٹی نے عمومی طور پر مسترد کردیا اور پرجوش انداز میں مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔ اس حوالے سے قومی سلامتی کے نئے امریکی مشیر لیفٹیننٹ جنرل ایچ آرمک ماسٹر نے نیشنل سیکورٹی کونسل کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ دریں اثناء امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی کی 190سالہ تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتے ہوئے امریکی مسلمان کانگریس مین کیتھ ایلی سن کو سب سے موثر ڈیمو کریٹک نیشنل کمیٹی کا متفقہ طور پر ڈپٹی چیئرمین منتخب کرلیا گیا ہے۔ امریکی صدر کوبھی اب اندازہ ہوتا جارہا ہوگا کہ ان کی اسلام مخالف پالیسیوں کو ان کے اپنے ووٹروں نے بھی قبول نہیں کیا۔ نیز بڑے پیمانے پر اجتماعی امریکی ضمیر، امریکی عدلیہ اور میڈیا نے اپنے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے جاری کردہ امتیازی قوانین کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ امریکہ میں مسلمان امریکی سوسائٹی کا حصہ بن کر رہتے ، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ، سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر کے انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے اور اپنی پسندیدہ پارٹیوں کو بڑھ چڑھ کر فنڈ دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکنا ریلیف جیسی فلاحی تنظیمیں بلاتفریق مذہب و ملت دور دراز علاقوں میں سیلاب، آندھی طوفان یا دوسرے سانحات و حوادث میں گھرے ہوئے آفت زدہ لوگوں کی مدد کرتی ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ نئے امریکی مشیر قومی سلامتی کا بیان ان کی انفرادی نہیں بلکہ نظر ثانی شدہ امریکی حکومتی پالیسی کا حصہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی علی الاعلان اس پالیسی کو اختیار کریں۔

.
تازہ ترین