• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سےپیوستہ)
فارما انڈسٹری اور کیمسٹ حضرات کے احتجاج کے موقع پر لاہور کے چیئرنگ کراس پر بدترین دہشت گردی ہوئی! البتہ ایسوسی ایشنز کے عہدہ داران تو بچ گئے، مگر ایک ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) سید احمد مبین، قائم مقام ڈی آئی جی آپریشن زاہد گوندل چار پولیس اہلکار اور 13شہری شہید ہو گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب حکومت کو پہلے سے اطلاع تھی کہ کوئی دہشت گردی ہو سکتی ہے تو حکومت کو احتجاج کرنے والوں کو روکنا چاہئے تھا اور اب فارما انڈسٹری والوںکی سزائوں کے حوالے سے اعتراضات کو مانا جا رہا ہے، تو یہ بات پہلے ہی مان لیتے تاکہ جانی نقصان نہ ہوتا۔ ڈی آئی جی ٹریفک سید احمد مبین کے بارے میں ہمیں بچوں کے معروف فزیشن اور میو اسپتال کے چلڈرن وارڈ کے سابق سربراہ اور ان کے کزن پروفیسر ڈاکٹر قاضی یعقوب نے بتایا کہ اس افسر پولیس کے پاس اپنا کوئی گھر نہیں تھا بلکہ ایک مرلہ زمین تک نہیں تھی اور جب کبھی انہیں میں کہتا کہ مبین تم اپنا گھر بنا لو، تو انہوں نے کہا کہ اس تنخواہ میں صرف بچے پڑھا سکتا ہوں اور انہوں نے میواسپتال وارڈ کی مرمت بھی کرا کے دی۔ کاش ہمارے دیگر پولیس آفیسرز بھی ایسے ہو جائیں۔ بہرحال وزیراعلیٰ نے شہید پولیس کے اہلکاروں کو ایک ایک کروڑ روپے دیئے اور ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور تا عمر تنخواہ دینے کا لائق تحسین کام کیا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ان سپاہیوں کی بیوگان کو تمام واجبات اور تنخواہ بروقت ملے اور ان کو حکومت علاج و معالجے کی بھی تمام سہولتیں فراہم کرے۔
اب پھر اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، آج فارما انڈسٹری اور کیمسٹ حضرات یہ شور مچا رہے ہیں کہ ڈرگ ایکٹ میں نافذ سزائیں ہمیں قبول نہیں۔ تو ہم اس حوالے سے کچھ عرض کریں گے جو یقیناً ان کی طبیعت پر گراں نہیں گزرے گی۔
ارے دوستو! حکومت نے یہ ڈرگ ایکٹ 1976ء میں نافذ کیا تھا، پھر آج اعتراض کس بات کا۔؟ اصل میں اِس ایکٹ میںغیر معیاری اور جعلی ادویات اور کیمسٹوں کے حوالے سے سزائیں برائے نام تھیں۔ اب قانون میں سزا تو اس شخص کے لئے ہے جو ملاوٹ والی دوائی بنا رہا ہے۔ یا دوائی میں پوری مقدار نہیں رکھ رہا۔ یا بالکل ہی جعلی دوائی بنا رہا ہے۔ تو کیا جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں وہ جعلی دوائی بنانا چاہتے ہیں یا جعلی ادویات بنا رہے تھے۔؟ پاکستان میں آپ کو ہر دوائی کیمسٹ سے بغیر کسی نسخے کے مل جاتی ہے اور بعض کیمسٹ تو مریضوں کو دوائیاں تک بیماری سن کر دے رہے ہیں۔ اب ہمارا سوال ان کیمسٹ صاحبان سے ہے بقول ان کے کہ 40ہزار فارمیسی ملک میں ہیں جبکہ فارما سسٹ 9ہزار ہیں۔ یعنی باقی 31ہزارفارما سسٹ کون ہیں جن کے ناموں پر یا پھر بغیر ناموں کے فارمیسی چلائی جا رہی ہے یا پھر ایک ایک فارماسسٹ کے نام پر دس دس دکانیں کام کررہی ہیں۔ ترمیم شدہ قانون کے مطابق ہر میڈیکل اسٹور/ فارمیسی چلانے والے کو ایک فارما سسٹ رکھنا پڑے گا۔ تو کیا یہ قانون غلط ہے؟ پھر اگر آپ کی ادویہ ساز فیکٹری حکومت کے مقررکردہ اور بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں۔ وہاں صفائی نہیں، مشینری اور آلات پورے نہیں۔ فیکٹری کا اندرونی ماحول ادویات بنانے کے لئے بالکل صحیح نہیں تو پھر اگر قانون حرکت میں آتا ہے تو آپ کو کیوں اعتراض ہو؟آج جو لوگ شور مچا رہے ہیں ان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا اپنی فیکٹری کی تیار کردہ گولی/ کھانسی کا شربت/ انجکشن خود استعمال کرو گے۔؟کیا اپنے بچوں کو اپنی غیر معیاری فیکٹری کی ادویات استعمال کروائو گے۔؟
چین میں ملاوٹ اور جعلی ادویہ سازی پر سزائے موت دے دی جاتی ہے اور اگر حکومت نے ڈرگ ایکٹ میں ترمیم کر کے سزائیں بڑھا دی ہیں تو اس پر شور کیوں؟ یعنی آپ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ غیرمعیاری اور جعلی ادویات بنا رہے ہیں۔ سچ کو کسی بات کی آنچ نہیں ہوتی۔
جب حکومت نے ڈرگ ایکٹ میں ترامیم کا سلسلہ ڈیڑھ برس قبل شروع کیا تھا اور اس دوان تمام اسٹیک ہولڈرز، پاکستان فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے نمائندوں، یونیورسٹیوں کے ٹیچنگ اسٹاف، پروفیسر آف میڈیسن، پروفیسر آف فارماسیوٹیکلز، محکمہ قانون اور دیگر اداروں سے تفصیلی مشاورت کرنے کے بعد یہ ترامیم تیار کی گئی تھیں۔ اس سارے عمل کا علم فارما انڈسٹری کو تھا، تو پھر انہوں نے اس وقت اس پر آواز کیوں نہیں بلند کی؟۔
دنیا کے کسی ملک میں جعلی ادویات بنانے والوں کے ساتھ نہ تو قانون میں کوئی گنجائش ہے اور نہ شہری ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیںنہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے ساتھ کوئی رعایت برتے ہیں لیکن پاکستان میں کیسی عجیب صورتحال ہے کہ جعلی اورغیر معیاری ادویات بنانے والے ہر طرح کی رعایت اور مدد مانگ رہے ہیں جبکہ قانون پہلے سے موجودہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈرگ ایکٹ قیام پاکستان کے فوراً بعد بن جانا چاہئے تھالیکن ہمارے ہاں1976میں ڈرگ ایکٹ بنا، یعنی پاکستان کے قیام کے29برس بعد۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 29برس تک لوگ جعلی اور غیر معیاری ادویات کھاتے رہے، پھر 1971سے 2017 تک، یعنی پھر 41برس تک مزید ڈرگ ایکٹ کو فعال نہ کیا گیا اور اب جب موجودہ حکومت نے ڈرگ ایکٹ میں ترامیم کرکے اس کو صرف اور صرف عوام کی خاطر موثر بنایا ہے تو اک شور برپا ہوگیا ہےاورجو لوگ اس پر شور مچا رہے ہیں اس کامطلب ہے وہ عوام دشمن ہیں یا پھر وہ پاکستانی عوام میں سے نہیں۔
ارے دوستو! یہ غیر معیاری اور دو نمبر ادویات کل آپ کو یا آپ کے بچوں اور عزیز و اقارب کو بھی کسی اسپتال کی ایمرجنسی میں دی جاسکتی ہیں۔ انتہائی غیر معیاری ماحول میں تم لوگ یہ ادویات بنارہےہو۔ 70برس سے تم لوگوں کو لوٹ رہے ہو، ان کی صحت سے کھیل رہے ہو۔ آج جو رنگ رنگ کی بیماریاں لوگوں میں پیدا ہورہی ہیں اس کے ذمہ داربھی تم لوگ ہو،ایک غیر معیاری ادویات بناتے ہو ا س پر اصرار بھی کرتے ہوکہ تم کو کچھ نہ کہا جائے۔حکومت نے ڈرگ ایکٹ میں ترامیم کرکے سو فیصدی اچھا قدم اٹھایا ہے۔ صرف یہ تھا کہ حکومت تمام فارما انڈسٹری کو چھ ماہ کا وقت دے کر اس ایکٹ میں تمام دفعات پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کرنا شروع کردیتی اگر اس ملک میں پچھلے ستر برس سے غیر معیاری اور دو نمبر ادویات بن رہی تھیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آئندہ ستر برس تک بھی یہی سلسلہ جاری رہے۔ دوسراہم یہاں پر ڈرگ انسپکٹروں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جو مدتوں فارما انڈسٹری اور ڈرگ اسٹورز سے ماہانہ رشوت لے کر انہیں غیر معیاری اور دو نمبر ادویات فروخت کر رہے ہیں۔

.
تازہ ترین