• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر سال ایک ہی بات دہرانا اچھا نہیں لگتا۔ لیکن کیا کیا جائے، دل دکھتا ہے تو کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے۔ بھلا بتائیے، ادب کا جشن کراچی میں منایا جا سکتا ہے، اسلام آباد اور فیصل آباد میں منایا جا سکتا ہے، اگر نہیں منایا جا سکتا تو لاہور میں۔ کیوں؟ یہاں سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔ چلئے، اس بار تو مال روڈ اور ڈیفنس کے دھماکوں کے بعد کچھ خطرے تھے، لیکن اس سے پہلے ایسے کیا خطرے تھے کہ لاہور لٹریری فیسٹیول کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ یہ جشن نہایت امن و سکون کے ساتھ الحمرا میں ہو رہا تھا۔ پچھلے سال اچانک اعلان کیا گیا کہ الحمرا میں خطرہ ہے۔ چنانچہ یہ جشن مقامی ہوٹل میں منایا گیا۔ جگہ کی تبدیلی کا حکم بھی جشن شروع ہونے سے صرف ایک دن پہلے سنایا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سارے انتظامات بھاگ دوڑ میں کئے گئے۔ خیر، جیسے تیسے وہ جشن ہو گیا اور ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔
لیکن اس سال حکومت نے جشن کے منتظمین کو آخر وقت تک جس طرح سولی پر لٹکائے رکھا اس سے تو خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ یہ سال جشن ادب کے بغیر ہی گزر جائے گا۔ پہلے اعلان ہوا کہ اس سال یہ جشن الحمرا میں ہی ہو گا۔ پاکستان اور باہر سے آنے والے تمام مہمانوں کو اس کی اطلاع کر دی گئی۔ پھر بتایا گیا کہ الحمرا میں خطرہ ہے کیونکہ وہ چاروں طرف سے کھلا ہوا ہے، اس لئے یہ جشن کہیں اور لے جائو۔ اب پھر جشن کے منتظمین نے مقامی ہوٹل جانے کی تیاری کی۔ لیکن حکومت کی طرف سے پھر ہدایت آئی کہ اس ہوٹل میں بھی خطرہ ہے۔ تماشہ یہ ہے کہ یہ ساری باتیں عین وقت پر ہو رہی تھیں۔ جشن کا انتظام کرنے والے کبھی ادھر بھاگ رہے تھے تو کبھی ادھر۔ باہر کے ملکوں سے آنے والے مہمان لاہور پہنچ چکے تھے۔ انہیں پاکستان بلانے کے لئے ہوائی جہاز کے ٹکٹ وغیرہ پر جو خرچ کیا گیا اسے تو جانے دیجئے، ان مہمانوں کے سامنے جو اس ملک کی بے عزتی ہو رہی تھی، وہ اس سے بھی بڑا مسئلہ تھا۔ دنیا کے سامنے ہم اپنی کیا تصویر پیش کر رہے تھے؟
آخر، افتتاح کی تاریخ سے صرف ایک شام پہلے ایک دوسرے مقامی ہوٹل میں جشن منانے کی اجازت مل گئی۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جشن صرف ایک دن ہو گا۔ جشن کا پروگرام تین دن کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ اور یہ پروگرام لاہور لٹریری فیسٹیول کی ویب سائٹ پر بھی لگا دیا گیا تھا۔ اب حکم حاکم مرگِ مفاجات، تین دن کے پروگرام کو ایک دن پر سمیٹا گیا۔ اور یہ کام صرف ایک رات پہلے کیا گیا۔ اسی شام پاکستان کے دوسرے شہروں سے آنے والے ادیبوں اور شاعروں کو اطلاع دی گئی کہ وہ لاہور تشریف لانے کی زحمت نہ فرمائیں۔ اب چو نکہ پورا جشن ایک ہی دن میں نبٹانا تھا، اس لئے پروگرام سے اردو اور پنجابی کے تمام اجلاس منسوخ کر دیئے گئے۔ اب صرف وہی پروگرام رہ گئے جن میں باہر سے آنے والے مہمان شامل تھے۔ شکر ہے زہرا نگاہ اور عارفہ سیدہ کے پروگرام نے اردو کی عزت رکھ لی ورنہ اپنی زبان کا بالکل ہی صفایا ہو گیا تھا۔ اور ہاں، اصغر ندیم سید نے ہماری پرانی فلموں کی ہیروئین شبنم کے ساتھ بات چیت بھی کی۔ اور ہمیں پاکستان کی فلمی صنعت کا سنہری دور یاد دلایا۔ شبنم بنگلہ دیش سے آئی ہیں۔
بہرحال، ایک دن کا ہی جشن ہوا اور بہت اچھا ہوا۔ جتنے بھی اجلاس ہوئے، ہر اجلاس نوجوان، جوان اور بزرگ مردوں اور خواتین سے بھرا ہوا تھا۔ ہوٹل میں واقعی جشن کا سماں تھا۔ مگر وہاں ہر شخص ایک ہی سوال کر رہا تھا کہ اگر حکومت ایک دن کے لئے جشن کی حفاظت کا انتظام کر سکتی ہے تو تین دن کے لئے یہ انتظام کیوں نہیں کر سکتی؟ اگر ایک دن پولیس کے چند دستے وہاں لگائے جا سکتے ہیں تو تین دن کے لئے کیوں نہیں لگائے جا سکتے؟ اگر ہمارے حکمرانوں کی جان و مال کی حفاطت پر مامور پولیس کے دستے ایک دو دن کے لئے اس جشن پر لگا دیئے جائیں تو ان کا کیا بگڑ جائے گا؟ ایسے جشن دنیا کے سامنے پاکستان کا روشن چہرہ ہی پیش کرتے ہیں۔ یہ جشن ہمارے ملک کی عزت اور وقار میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔ باہر سے جو ادیب اور دانشور اس جشن میں شرکت کے لئے آتے ہیں وہ ایک طرح سے اپنے ملکوں میں ہمارے سفیر بن جاتے ہیں۔ وہ کام جو ہمارے سفارت خانوں کو کرنا چاہئیں یہ بیرونی مندوب اپنے طور پر کرتے ہیں۔ اس بار لاہور کے جشن میں ولیم ڈیل رمپل بھی موجود تھے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ڈیل رمپل نے ’’لاسٹ مغل‘‘ اور ’’وہائٹ مغل‘‘ اور ’’دہلی‘‘ پر کتابیں لکھ کر مسلمانوں پر کتنا احسان کیا ہے۔ انہو ں نے کوہ نور ہیرے پر بھی کتاب لکھی ہے۔ اس جشن کے ایک اجلاس میں اس کتاب پر بات بھی ہوئی۔ پچھلے دنوں سیہون میں لال شہباز قلندرؒ کے مزار پر جو دھماکہ ہوا اس پر لندن کے اخبار ’’گارڈین‘‘ میں انہوں نے نہایت درد مندی کے ساتھ مضمون لکھا۔ اور اس مزار اور اس مقام کی وہ تاریخ ہمیں یاد دلائی جو شاید ہمارے اپنے مورخوں کو بھی یاد نہیں ہو گی۔ یہ ڈیل رمپل ہی ہیں جنہوں نے جنوبی ایشیا میں جشن ادب کی داغ بیل ڈالی ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے ’’جے پور جشن ادب‘‘ شروع کیا۔ اس کے بعد یہ جشن جگہ جگہ شروع ہو گئے ہیں۔ لاہور میں یہ جشن مولانا صلاح الدین احمد کے خاندان کے ایک نوجوان رضی احمد نے شروع کیا ہے۔ اگر آپ کو اردو زبان اور اردو ادب سے ذرا بھی مس ہے تو آپ مولانا صلاح الدین احمد کو ضرور جانتے ہوں گے۔ رضی احمد اپنے خاندان کی روایت زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے اپنا تن، من اور دھن وقف کر دیئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈال کر ان کی حوصلہ شکنی کریں، ہمیں تو ہر سطح پر ان کی مدد کرنا چاہئے۔ اب ایک طرف تو ہمارے وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ ادیبوں کو ’’ضرب عضب‘‘ کی طرح ’’ضرب قلم‘‘ سے کام لے کر شدت پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ رنا چاہئے اور دوسری طرف ہم ادبی جشن برپا کرنے والوں کا راستہ کھوٹا کر رہے ہیں۔ تو کیا ہم دنیا کو پاکستان کا روشن چہرہ دکھانا نہیں چاہتے؟

.
تازہ ترین