• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انصاف کا بول بالا ہوگیا ہے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ ایان علی بے چاری پہلے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھی اور پھر ضمانت کے بعد اپنا نام ای سی ایل کی فہرست سے نکالنے کے لئے عدالتوں کے دھکے کھا رہی تھی ۔ایان علی کو یوں عدالتوں کے دھکے کھاتے ہوئے دیکھ کر مجھے اُن بزرگوں کے یہ جملے بہت یاد آتے ہیں جو عمو ماً دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یا اﷲ ہمیشہ تھانے کچہری سے بچا کے رکھنا۔لیکن مجھے وہ خاتون بھی بہت یاد آئی جو کچھ سال قبل اڈیا لہ جیل کے دورے کے دوران ملی اور ہمیں دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ شائد ہم کوئی بہت اعلیٰ افسران ہیں ۔ وہ بیچاری واویلہ کرنے لگی اسکا حلیہ دیکھا تو اندازہ ہوگیا کہ یہ بہت ہی غریب گھرانے کی ہے کیونکہ نہ تو اسکے بال ڈائی ہوئے تھے اور نہ اس نے کو ئی ہیئر اسٹائل بنا رکھا تھا البتہ وہ سر سے با ر بار ڈھلک جا نے والے دو پٹے کہ پلو کو ضرو ر ٹھیک رکھنے کی کو شش کر تی رہی تھی۔ اسکے چہرے کی میل اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ لپ اسٹک ، نیل پالش، بالوں میں برش یا چہرے کو کسی اچھے سے میک اپ بیس سے سنوا رنا تو درکنار اس نے کبھی چہرے کو خوشبو والے یا عام صابن سے دھو یا بھی نہ ہوگا ۔اسکے لباس کی بوسیدگی اس بات کی گواہی تھی کہ اس نے اس سوٹ کو درجنوں مرتبہ دھو کر پہنا ہوگا ۔اور اس لباس کے پھولوں کی بے رنگ بوسید گی سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہ تھا کہ اب شاید یہ لباس مزید پانی کی ’’دھولاہٹ ‘‘ بھی برداشت نہیں کرسکے گا ۔واویلے کے دوران اسکی آنکھوں کے بنجر پن اور خشکی سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہ تھا کہ رو رو کے اس نے آنسو کی طاقت کو بھی ضائع کردیا تھا ۔ان ساری ’’خامیوں ‘‘ کے باوجود وہ سمجھ رہی تھی کہ ہم اسکی داد رسی کریں گے ۔وہ کہہ رہی تھی کہ میں تو اپنی بیمار ماں کی تیمارداری کے لئے راولپنڈی آئی تھی میرے بچوں کو صرف اتنا معلوم ہے کہ میں انکی نانی کی تیمارداری کے لئے آئی ہوں ۔چار روز سے وہ میرا انتظار کر رہے ہوں گے ۔صاحب میں اسمگلر نہیں ہوں نہ مجھے پتہ ہے کہ یہ پائوڈر کیا بلا ہے صاحب جی خدا کا واسطہ ہے مجھے یہاں سے نکال لیں نہ جانے میرے بچے کس حال میں ہونگے ،میرے سوا انکی دیکھ بھا ل کر نے والا کو ئی نہیںہے ، خو ا تین قید یو ں کی بیرک میں یہ وا حد قید ی تھی جو یو ں آہ و بکا کر رہی تھی ، مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کس طر ح اسکی مدد کروں یا اسکی داد رسی کے لئے کسی سے سفارش کروں،اس خا تو ن نے با قا عدہ چیخناشرو ع کر دیا تھا، میر ے رکتے قدم دیکھ کر ایک سرکاری اہلکار نے کہا کہ ’’بڑے ڈرامہ باز ہوتے ہیں یہ لوگ‘‘ جب پکڑے جاتے ہیں تو پھر انہیں بچے اور ماں باپ یاد آتے ہیں پہلے انہیں انکی کوئی فکر نہیں ہوتی ،جرم کر تے ہو ئے ان جیسا ظا لم کو ئی نہیں ہوتا۔ہوسکتا ہے وہ سرکاری اہلکار ٹھیک ہی کہتا ہو لیکن مجھے تو ایسا ہی لگا کہ اس بے چاری خاتون کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے لیکن ایان علی کو دیکھ کر تو مجھے کبھی بھی نہیں لگا کہ وہ ’’ڈرامہ ‘‘ کر رہی ہیں ۔بلکہ ہمیشہ ایسا لگا کہ وہ پاکستان کی ’’مظلوم‘‘ ترین خاتون ہے اور جب لطیف کھوسہ صاحب اس کا کیس لڑتے ہوئے کبھی بے چارگی اور کبھی غصے میں آجاتے تو مجھے اور بھی دکھ ہوتا کہ ان کے دل میں ایک ’’مظلوم ‘‘ خاتون کا کتنا دکھ اور درد ہے ۔اور انکی یہ حالت دیکھ کر مجھے یہ اندازہ ہوجاتا تھا کہ اس خا تون کو ضرور’’انصاف ‘‘ملے گا اور چھ لاکھ ڈالرز کا جو بیگ پکڑا گیا تھا وہ اسکے خلاف ایک سازش تھی میں پوری قوم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ شارخ جتوئی ، طیبہ کیس اور نہ جانے کتنے ایسے کیسز کے بعد ایک مرتبہ پھر ’’انصاف‘‘ کا بول بالا ہوا ہے آئیں ملکر وکٹری کا نشان بنائیں۔

.
تازہ ترین