• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر مملکت جناب ممنون حسین کے یہ الفاظ کہ ’’ہماری قوم کو حرام خوری کی عادت پڑ گئی ہے‘‘ ایک ایسی افسوس ناک حقیقت ہیں جسے جانتے سب ہیں مگر جسے بدلنے کے لیے فکرمند کوئی نظر نہیں آتا حالانکہ ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہمارا یہی اخلاقی بحران ہے۔ انہوں نے یہ بات گزشتہ روز بلڈنگ کوڈ آف پاکستان کی آتشزدگی سے بچاؤ سے متعلق دفعات کے اجراء کی تقریب سے خطاب میں کہی۔ صدر نے سرکاری ملازمین کے بارے میں شکوہ کیا وہ کام کرنے کے عادی ہی نہیں رہے اور حرام خوری ہمارا قومی وصف بن گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی و بجلی کے حکام کو انہوں نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے کرپٹ سربراہوں کو تبدیل کرنے کے لیے کہا تھا مگر ان کی تجویز پر عمل نہیں کیا گیا۔ تقریب کی مناسبت سے آتشزدگی سے بچاؤ کے انتظامات پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھی انہوں نے قومی سطح پر رواج پانے والے کام چوری، فرض ناشناسی اور حرام خوری جیسے اخلاقی رذائل کے اس شعبے پر پڑنے والے اثرات کی نشان دہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں آتشزدگی سے بچاؤ کے انتظامات میں انحطاط آیا ہے۔ صنعتی یونٹوں اور عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات بڑھے اور بھاری جانی ومالی نقصانات کا سبب بنے ہیں۔ صدر نے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کو حکومت کی بنیادی ذمہ داری قرار دیا اور آتشزدگی سے بچاؤ کے لئے بہتر قانون سازی اور زیادہ مؤثر بندوبست پر اطمینان کا اظہار کیا۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ محض قوانین میں بہتری معاشرے میں کسی مثبت تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتی۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ قانون نافذ کرنے والی مشینری کے ذمہ دار ضمیر فروش، خائن اور بددیانت نہیں بلکہ مخلص، دردمند اور فرض شناس ہوں۔ ایسا نہ ہو تو بہترین قوانین بھی معاشرے کو بدعنوانی اور خیانت سے بچانے میں ناکام رہتے ہیں جبکہ معاملات کی ذمہ داری صادق اور امین افراد کے ہاتھوں میں ہو تو قوانین میں خامیوں اور نقائص کے باوجود بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے عشروں سے ریاستی اختیارات اور مناصب پر بالعموم وہ طبقات قابض چلے آرہے ہیں جن کے نزدیک اخلاقی اقدار کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں بلکہ دنیا کی دولت اور لامحدود عیش و عشرت کی زندگی ہی ان کا مطلوب و مقصود ہے۔ قوم اور ملک کے مفادات کو اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کی بھینٹ چڑھانا اس طبقے کے بیشتر افراد کے ضمیر پر کسی بوجھ کا سبب نہیں بنتا۔ قومی وسائل کو لوٹ کر، ٹیکس چوری اور کمیشن خوری کے ہتھکنڈے اپنا کر بیرون ملک بینک بیلنس اور جائدادیں بنانے اور اگر کبھی اتفاقاً قانون کی گرفت میں آجائیں تو اپنے ناجائز اقدامات کو جائز ثابت کرنے کی قانونی جنگ لڑنے میں انہیں کوئی عار نہیں ہوتا۔ بدعنوانوں کے احتساب کے لئے بنائے جانے والے اداروں کے ذمہ دار بسا اوقات ناجائز دولت کمانے والوں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے حربے اختیار کرکے ’’لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘ کی عملی تفسیر نظر آتے ہیں۔ پاکستانی عوام میں اللہ کے فضل سے آج بھی دیانتدار لوگ حکمراں طبقوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لیکن ’’الناس علیٰ دین ملوکہم‘‘ یعنی ’’لوگ اپنے حکمرانوں کے طور طریقوں کی پیروی کرتے ہیں‘‘ کے مصداق اب معاشرے میں کرپشن اور کرپٹ افراد کے خلاف نہ صرف یہ کہ وہ نفرت اور مزاحمت نہیں پائی جاتی جو ماضی میں مسلم معاشروں کا خاصہ ہوا کرتا تھا بلکہ عام لوگوں میں بھی اخلاقی انحطاط تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ فی الحقیقت یہ اخلاقی بحران ہی ہماری تمام مشکلات، مصائب اور مسائل کی اصل وجہ ہے۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ عوام اپنے ووٹوں سے ایماندار، فرض شناس اور مخلص افراد کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچائیں جبکہ حکومت میں موجود خدا ترس اور باضمیر عناصر اختیارات اور وسائل کو معاشرے کی اخلاقی اصلاح کے لئے بھرپور طور پر استعمال کریں، خصوصاً ذرائع ابلاغ اور تعلیمی نظام سے آخرت کی جوابدہی کا احساس عام کرنے کا کام لیا جائے۔

.
تازہ ترین