• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگل بظاہر بے حد پُرسکون لگتا ہے۔ چرند، پرند سب اپنی اپنی کھال میں مست دکھائی دیتے ہیں، کہیں گینڈا اونگھ رہا ہے کہیں ہاتھی سستا رہا ہے، پرے ندی کے کنارے بادشاہ سلامت قیلولہ فرما رہے ہیں، رنگ برنگے پرندے فضاؤں میں آزادی سے اڑ رہے ہیں، سانپ بلوں میں سر چھپائے بیٹھے ہیں، بارہ سنگھے اپنے جھنڈ میں چہل قدمی کر رہے ہیں، بھینسوں کے چہروں پر ازلی شانتی ہے، بندر ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگا لگا کے خوش ہو رہے ہیں، دریائی گھوڑا ان سب کو نیم وا آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور اِن سب سے پرے ایک دور اندیش قسم کا چیمپنزی بیٹھا جنگل کی بے ثباتی پر غور کر کے اپنا سر کھجا رہا ہے۔ تمام جانور اپنی اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہیں، زمین سب کی سانجھی ہے، کسی کا پلاٹ ہے نہ پلازہ، کوئی قبضہ گروپ ہے نہ کوئی گائے ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کر رہی ہے، راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اس دوران اچانک شیروں کا ایک گروہ خواب غفلت سے بیدار ہوتا ہے، سامنے ٹہلتے ہوئے ہرن چوکنے ہو جاتے ہیں، اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتے شیر حملہ آور ہو کر اُس کو چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں، ساتھ ہی کہیں سے ایک اژدھا رینگتا ہوا آتا ہے اور ایک سور پر جھپٹ پڑتا ہے، ایک عقاب جو کافی دیر سے شکار کی تاک میں تھا یکدم ندی کے اوپر سے اڑان بھر کے تیرتی ہوئی مرغابی کو دبوچ لے جاتا ہے، آن ہی آن میں ہلچل مچ جاتی ہے، ہرن چوکڑیاں بھرنا بھول جاتے ہیں، جنگل میں گویا بھونچال سا آ جاتا ہے، تمام چوپائے خوف سے یہ سب تماشا دیکھتے ہیں لیکن پھر کچھ ہی دیر بعد دوبارہ سر جھکا کر گھاس کھانے میں مشغول ہو جاتے ہیں جیسے یہ معمول کی کارروائی ہو۔ چیمپنزی کے چہرے پر البتہ تفکرات کے سائے گہرے ہو جاتے ہیں۔
کسی زمانے میں انسان بھی ایسے ہی جنگل کا باسی ہوا کرتا تھا، کبھی جنگلی جانور اُس کا شکار کیا کرتے تھے اور کبھی وہ اِن وحشیوں کو شکار کر کے اپنی خوراک کا بندوبست کرتا تھا، پھر رفتہ رفتہ اُس نے اپنے آپ کو اس سسٹم سے علیحدہ کر لیا، اپنی الگ بستیاں بنا لیں، مگر قانون وہی جنگل کا رہا، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس، انسان فطرتاً جانور ہی رہا، طاقتوروں نے کمزوروں کو غلام بنا لیا، عورتیں بھی ملکیت میں ہوتیں، کمزور انسانوں نے اپنے آپ کو طاقتور بنانے کے لئے گروہ تشکیل دینے شروع کئے، یوں قبیلے بننے شروع ہوئے، لیکن قانون نہ بن سکا، پھر شعور پروان چڑھا اور یہ طے پایا کہ چند اصول بنا لئے جائیں مگر یہ تمام اصول بھی طاقتوروں کی مرضی سے بنائے گئے، انہیں قانون کا نام دیا گیا، اس قانون کے بل پر فرعونوں نے حکومت کی، جنگل کا قانون کچھ ’’ریفائن‘‘ تو ہوا مگر بنیادی اصول وہی رہا، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ رفتہ رفتہ انسانی ذہن کی مزید ترقی ہوئی تو بادشاہوں کے لئے بھی قانون بنائے گئے مگر یہ قانون رعایا پر ہی نافذ ہوتے تھے یا زیادہ سے زیادہ کوئی رحم دل بادشاہ اپنے اقتدار کو دوام دینے اور عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کی غرض سے کسی رشتہ دار پر بھی لاگو کر دیا کرتا تھا۔ ارتقا کا عمل مزید ہوا، انسان بغاوت پر آمادہ ہوئے، بادشاہوں کو قانون کے تابع کیا گیا اور یہ اصول مانا گیا کہ قانون سب کے لئے یکساں ہوگا، کہیں چند سیانوں نے یہ نکتہ بھی نکالا کہ قانون بنانا کسی ایک فرد کا اختیار نہیں ہو گا بلکہ سرکردہ اور بڑے بوڑھوں کی مشاورت سے بنایا جائے گا، کچھ عرصہ مزید گزرا تو انسانوں نے یہ راز بھی جانا کہ قانون بنانے اور اس پر عمل کروانے کا حق صرف معاشرے کے چند افراد کو نہیں بلکہ ہر انسان کو برابر ملنا چاہئے، یہ بات انسان نے کئی سو برس پہلے جان لی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ انسانی ذہن نے مزید ترقی کی، ملکوں کے درمیان سرحدیں کھینچی گئیں، اقتدار اعلیٰ کا تعین کیا گیا، جدید معاشرہ وجود میں آیا، ریاست کی بنیاد رکھی گئی، فرد اور ریاست کے تعلق کی تشریح کی گئی، ریاست کے اختیارات پر حد لگائی گئی، تصور حکمرانی تبدیل ہوا، بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لی، ایک فرد ایک ووٹ کے تحت حکومت منتخب کرنے کا اصول متعارف کروایا گیا، شخصی آزادی کا تصور پیدا ہوا، عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق ملنے شروع ہوئے، نسلی تعصب کے خلاف مہم شروع ہوئی، غلامی کا دور ختم ہوا، جبری مشقت پر پابندی لگی، مذہبی آزادی اور رواداری کا رجحان پروان چڑھا اور مہذب انسان نے یہ اصول بھی اپنا لیا کہ اسے اپنی زندگی آزادی اور مسرت کے ساتھ جینے کا پورا حق حاصل ہے۔ جنگل میں خونخوار جانوروں کے رحم و کرم پر غاروں میں بسنے والا انسان اب شہروں کی چکاچوند روشنیوں میں آزادی کے ساتھ سانس لیتا ہے اور اِس آزادی کو وہ سوشل کنٹریکٹ یا آئین یقینی بناتا ہے جس میں بنیادی حقوق کے تحفظ کا وعدہ ایک آزاد اور جمہوری ریاست کرتی ہے۔
جنگل کے قانون سے لے کر مہذب معاشرے تک کا یہ سفر اب بھی جاری ہے،کبھی کبھی اس سفر کو ریورس گیئر بھی لگ جاتا ہے، مثلاً جن ملکوں نے یہ سفر صدیوں میں طے کیا تھا انہی ممالک نے گزشتہ سو برس میں کروڑوں انسانوں کا خون بہایا اور پتھر کے دور کے انسان کی سفاکی کو مات دی۔ لیکن دوسری طرف انہی ممالک کے عوام نے کروڑوں کی تعداد میں اس بربریت کے خلاف آواز بلند کی اور یوں انسانی آزادی اور وقار کے اُس سفر کو جاری رکھا جس کی شروعات جنگل کے قانون سے ہوئی تھی۔ ہمارے ہاں بھی ایسی ہی دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں، ایک وہ جو انسان کی آزادی کے قائل ہیں جو صرف جدید جمہوری معاشرے میں ہی ممکن ہے جہاں قانون سب کے لئے یکساں ہو، حکومت عوام کی رائے سے منتخب ہو، مذہبی رواداری ہو اور کوئی شخص کسی دوسرے پر اپنا طرز زندگی مسلط کرنے کی جرأت نہ کرے جبکہ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو آمریت کا داعی ہے، جو ہمیں پتھر کے دور میں واپس لے جانا چاہتا ہے جہاں جنگل کا قانون تھا، جہاں انسان کی آزادی اور مسرت کا کوئی تصور نہیں تھا اور جہاں طاقتور کمزور کوکھا جاتا تھا۔ گویا جس سفر کو انسان نے ہزاروں برس میں طے کیا اور جس کے پیچھے لاکھوں انسانوں کی اجتماعی دانش ہے، اسے ہمارا ایک مخصوص طبقہ ریورس کرنا چاہتا ہے۔
اس ضمن میں یہ ہے کہ اس طبقے کے بعض لوگ جنونی ہیں اور کچھ خود کو عقل و دانش کا پیکر سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں اور ہمیں کیوں جنگل میں واپس دھکیلنا چاہتے ہیں، یہ ذکر پھر کبھی۔



.
تازہ ترین