• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جہاز کے کپتان نے جیسے ہی اعلان کیا کہ اب ہم کچھ ہی دیر بعد تنزانیہ کے بین الاقوامی ائیر پورٹ پر اترنے والے ہیں تو شاید جہاز نے بھی کچھ خفگی کا اظہار کیا اور ہوا کے دبائو کے سبب شدید ہچکولوں کے ساتھ بادلوں کا سینہ چیرتے ہوئے اب جہاز نیچے کی جانب محو سفر تھا، چند لمحوں بعد تنزانیہ کے سابق دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر دارالسلام کا فضائی منظر سامنے تھا، چاروں طرف ہریالی تھی جس کے درمیان سرخ رنگ کی چھتوں والے مکانات بھلے معلوم ہورہے تھے تاہم یہ بات یقینی تھی کہ شہر کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ڈیزائن نہیں کیا گیا نہ کوئی پلاننگ نظر آرہی تھی اور نہ ہی کوئی لمبی چوڑی سڑکیں جو دیگر ترقی یافتہ ممالک میں نظر آتی ہیں، ویسے بھی تنزانیہ میں ترقی نہیں ہو سکی ہے جو دیگر ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ممالک میں ہوچکی ہے، دارالسلام ائیرپورٹ کا رن وے ایک مشکل رن وے ہے جس کے لئے جہاز کو ایک طویل چکر لگاتے ہوئے ساحل کے بالکل ساتھ رن وے پر لینڈ کرنا ہوتا ہے، بہرحال چند لمحوں بعد ہی ہماری فلائٹ دارالسلام ائیرپورٹ پر لینڈ کرچکی تھی، ائیرپورٹ پر پہنچنے کے بعد ہی ویزہ فراہم کردیا جاتاہے تاہم تنزانیہ کا دعوت نامہ اور یلو فیور کا سرٹیفکیٹ ہونا بہت ضروری ہے سیاحت کے لئے ویزہ فیس پچاس ڈالر جبکہ کاروبار کے لئے ویزہ فیس ڈھائی سو ڈالر تک ہوتی ہے، تنزانیہ میں دنیا کے بہترین جنگلات ہیں اور جہاں سفاری کی سیاحت کے لئے مغربی ممالک کے سیاحوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہوتی ہے، تنزانیہ کا دارالحکومت دودوما Dodomaہے تاہم ابھی تک تنزانیہ کے سب سے بڑے شہر اور سابقہ دارالحکومت دارالسلام کو ہی مرکزی اہمیت حاصل ہے جہاں ملک کی پچاس فیصد معاشی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں، تنزانیہ میں پارلیمانی نظام جمہوریت قائم ہے۔ پارلیمنٹ، وزیراعظم اور صدر اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں تاہم یہاں صدر کو طاقت کا منبع سمجھا جاتا ہے، اس وقت تنزانیہ کے صدر جان پومبے ماگوفولی ہیں جبکہ وزیراعظم قاسم ماجالی ہیں تنزانیہ نے نو دسمبر 1961میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی جبکہ 1977 میں آئین نافذ ہوا اور آج تک یہی آئین تنزانیہ میں نافذ العمل ہے تنزانیہ کی آبادی پانچ کروڑ سے زائد ہے، سالانہ فی کس آمدنی 960ڈالر ہے جبکہ کرنسی کی مالیت بائیس سو شیلنگ فی ڈا لر کے برابر ہے، تنزانیہ معدنی وسائل سے مالا مال ہے یہاں بڑی مقدار میں تیل، تانبا ،کوئلہ اور گیس دریافت ہوچکا ہے۔ جبکہ قیمتی پتھر تنزانائٹ بھی صرف تنزانیہ میں ہی پایا جاتا ہے، یہاں کرپشن کی بے انتہا شکایات موجود ہیں سابقہ صدر موسووی کے دس سالہ دور صدارت میں تنزانیہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جنت بن چکا تھا جس میں کالا دھن لانے والے سرمایہ کاروں کی بہت بڑی تعداد شامل تھی۔ یورپ، بھارت، افریقی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بہت بڑی سرمایہ کاری تنزانیہ منتقل کی گئی جس سے یہاں پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کا آغاز ہوا۔ تاہم یہاں کرپشن اپنے عروج پر رہی جس سے بھاری سرمایہ کاری کے باوجود ریاست کو وہ فوائد حاصل نہ ہوسکے جو ہونے چاہئے تھے اور ملک کی مجموعی معیشت کا پچاس فیصد بلیک اکانومی کا شکار رہا یہی وجہ تھی کہ نئے اور موجودہ صدر ماگافولی نے عہدہ سنبھالتے ہی کرپشن کے خلاف زبردست اقدامات کیے لیکن بلیک معیشت کو ملکی معیشت میں ادغام ہونے کا موقع دیئے بغیر ہی پکڑ دھکڑ اور ٹیکس ریفارم کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا جس کے سبب بہت بڑی تعداد میں غیر ملکی سرمایہ کار ملک چھوڑ گئے۔ نچلی سطح پر رشوت کا بازار اب بھی گرم ہے مقامی لوگ بھی حکومت سے بے زار نظر آتے ہیں، لوگوں کے فون بھی ٹیپ کیے جاتے ہیں حکومت کے مخالفوں کے خلاف بھی کریک ڈائون عام سی بات نظر آتی ہے لیکن ایماندار لوگ خوش ہیں کیونکہ کرپٹ لوگوں کے جانے سے ایماندار طبقے کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے، جہاں تک پاکستانیوں کی بات ہے پاکستانی کمیونٹی کی تعداد ڈھائی سے تین ہزار افراد پر مشتمل ہے زیادہ تر لوگ کاروبار سے منسلک ہیں جبکہ کچھ افراد ملازمت پیشہ بھی ہیں، یہاں پاکستانی ہائی کمیشن بھی قائم ہے تاہم پاکستان کے تنزانیہ کے ساتھ وہ سفارتی تعلقات قائم نہیں ہیں جن کی دونوں ممالک کو ضرورت ہے یہاں فرسٹ سیکرٹری لیول کے افسر کو ہائی کمشنر کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں تاہم اس وقت محمد عمران بطور قائم مقام ہائی کمشنر کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ تنزانیہ میں پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے ویلفیئر ایسوسی ایشن آف پاکستان تنزانیہ کے نام سے تنظیم بھی موجود ہے جسے ویپ بھی کہا جاتا ہے، ویپ کی کوششوں سے دارالسلام کے سرکاری اسکو ل کا نام بھی تبدیل کرکے پاکستان اسکول رکھ دیا گیا ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کی ان کوششوں کو افریقی کمیونٹی بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، تنزانیہ میں پاکستانی سرمایہ کاروں نے آٹو موبائل سمیت سیمنٹ، میڈیسن اور اسٹیل کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور مناسب منافع بھی کمارہے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانی ہائی کمشنر محمد عمران نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں ہیومن ٹریفکرز معصوم پاکستانیوں کو سائوتھ افریقہ اور یورپ لےجانے کا جھانسہ دیکر تنزانیہ لے آتے تھے اور یہاں کے بارڈر پر بے یارو مددگار چھوڑ دیتے یا اکثر افریقی جنگلات میں لے جاکر گولی ماردیا کرتے تھے، محمد عمران نے بتایا کہ انھوں نے کئی معصوم پاکستانیوں کو انسانی اسمگلروں سے بچا کر پاکستان روانہ کیا ہے تاہم وہ پاکستان میں اپنے بھائیوں سے یہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ خدارا انسانی اسمگلروں کے ذریعے باہر جانے سے گریز کریں ورنہ نتیجہ مالی اور جانی نقصان کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا، اس دوران پاکستان کے معروف سائنسدان اور ادیب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی تنزانیہ میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کیا جس میں بیرون ملک پاکستانیوں کو ملک کا سرمایہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی پاکستان کے مستقبل سے مایوس نہ ہوں کیونکہ پاکستان کا مستقبل ترقی میں پنہاں ہے جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا بڑا حصہ ہے۔



.
تازہ ترین