• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور ترکی جغرافیائی لحاظ سے دو الگ الگ ریاستیں ہیں لیکن دونوں ممالک قدیم تاریخی، مذہبی ثقافتی، تجارتی اور تہذیبی بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل ہی برصغیر کے مسلمانوں نے ترک عوام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ اس وقت کر دیا تھا جب استعماری قوتیں سلطنت عثمانیہ کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔ پاکستان کو تسلیم کرنے والے ممالک میں ترکی صف اول میں شامل تھا جب دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا تو ترک سفیر یحییٰ کمال بیاتلی کی اسناد وصول کرتے ہوئے قائداعظم نے دونوں ممالک کے مابین موجود روحانی، جذباتی اور تہذیبی رشتوں کا بالخصوص ذکر کیا۔ ترکی دنیائے اسلام کا واحد ملک ہے جس سے ہمارے انتہائی گہرے مراسم گزشتہ70 سال سے تسلسل سے قائم ہیں۔ ترکی اور پاکستان میں دوستی کا باضابطہ معاہدہ 1951ء اور باہمی تعاون کا معاہدہ 1954ء میں ہوا۔ ترکی میں دائیں بازو، بائیں بازو یا فوجی آمریت ہی کیوں نہ ہو، ہمارے ساتھ ترکی کے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں جہاں ترکی ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی غیر مشروط اور کھل کر حمایت کرتا رہا ہے وہیں پاکستان نے مسئلہ قبرص پر ترکی کا بھرپور ساتھ دیا۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان اور ترکی علاقائی تعاون برائے ترقی کے رکن بنے جس سے دوطرفہ تعلقات میں مزید مضبوطی آگئی اور اب یہ ادارہ ای سی او کا روپ اختیار کرچکا ہے۔ پاکستان کی میزبانی میں یکم مارچ کو ای سی او کا سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں ترکی کی نمائندگی صدر رجب طیب ایردوان کررہے ہیں۔ نواز شریف کے دور حکومت میں پاک ترک تعلقات میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہوا ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے وفد کے ساتھ22 فروری تا 24 فروری 2017ء ترکی کا سرکاری دورہ کیا اور 23 فروری 2017ء کو قصرِ چانکایہ میں پاک ترک اعلیٰ سطحی اسٹرٹیجک تعاون کونسل کے اجلاس کی صدارت کی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی آمد کے روز ترکی کے تمام ٹی وی چینلز اور ریڈیو پر پاکستان کے نقطہ نظر سے بڑی اہمیت کی حامل خبر نشر کی گئی۔ اس خبر کے مطابق ترکی کے تمام اسکولوں میں اُردو زبان کو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھانے کا وزارتِ تعلیم کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے جو پاکستانی وفد اور ترکی میں اُردو زبان پڑھنے والے طلبہ کے لئے بڑی خو شی اور مسرت کا باعث ہے۔ وزیراعظم کے ترک صدر اور وزیراعظم کے ساتھ کامیاب مذاکرات اور مفاہمت کی یادداشتیں اور معاہدے دونوں کے درمیان دوستی اور محبت کے مظہر ہیں۔
پاک ترک اعلیٰ اسٹرٹیجک تعاون کونسل کا قیام 2009ء میں اس وقت کے ترکی کے وزیراعظم رجب طیب ایردوان کے دورہ پاکستان کے موقع پر آیا جس کا مقصد دونوں ممالک کے مابین اعلیٰ سیاسی سطح پر مشاورت کے لئے فریم ورک تشکیل دینا تھا۔ اس میکانزم کا مقصد دو طرفہ قیادت کو اسٹرٹیجک فوکس اور رہنمائی فراہم کرنا اور مستقبل کے لئے ایک وژن ترتیب دینے میں معاونت کرنا ہے۔ کونسل کے تحت 6مشترکہ ورکنگ گروپس کام کر رہے ہیں جن میں تجارت، توانائی، بینکنگ اور فنانس، مواصلات، ریلوے، تعلیم اور ثقافت و سیاحت کے شعبے شامل ہیں۔ کونسل کے دسمبر 2010ء، مئی2012ء، ستمبر 2013 اور فروری2015ء چار اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔ کونسل کے فریم ورک کے تحت دونوں ممالک کے درمیان50سے زیادہ معاہدے اور مفاہمت کی یاداشتوں کو حتمی شکل دی گئی اور موجودہ اجلاس میں مزید دس مفاہمی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے اور ترکی اور پاکستان کے درمیان آئندہ سال آزاد تجارت کے معاہدے پر بھی دستخط ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کی اگرچہ 22فروری کو کوئی سرکاری مصروفیات نہ تھیں تاہم صدر ایردوان نے رات کو وزیراعظم اور ان کے اہلِ خانہ کے لئے پرائیویٹ ڈنر کا بندوبست کر رکھا تھا۔ یہ ڈنر دنوں ممالک کے رہنماؤں کے ایک دوسرے کے ساتھ مختلف معاملات کے بارے میں بات چیت کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ ملاقات میں علاقے کی صورتحال کے علاوہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی میں کمی اور اس سلسلے میں ترکی کے رول پر بھی بات چیت کی گئی۔ اگلے روز وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وفد نے مزارِ اتاترک پر حاضری دی اور قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ بعد میں وزیراعظم اور ان کا ہمراہی وفد جب ترک وزیراعظم سے ملاقات اور پاک ترک اعلیٰ اسٹرٹیجک تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے قصرِ چانکایہ پہنچا تو ان کا چاق و چوبند فوجی دستے نے استقبال کیا اور سلامی دی۔ بعد میں دونوں رہنماؤں نے کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اور پھر مشترکہ طور پر پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ’’ترکی پاکستانیوں کے لئے دوسرے گھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترکی کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے‘‘۔ انہوں نے 15 جولائی 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے ترکی کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا ایک بار پھر اظہار کیا اور کہا کہ ترک عوام نے اس بغاوت کو کچل کر سنہری حروف سے نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے سال رواں کو پاک ترک سفارتی تعلقات کے قیام کا 70 واں سال قرار دیتے ہوئے ان تعلقات کو مزید فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے ترک وزیراعظم بن علی یلدرم کو جلد پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ اس موقع پر ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان کی ترقی ہمارے لئے باعث فخر ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لئے ترکی اپنی پوری کوشش کرے گا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے جس طریقے سے ترکی میں ناکام بغاوت کیخلاف مذمتی قرار داد کو منظور کیا ہے وہ ہم سب ترکوں کے لئے باعث ِ افتخار ہے‘‘۔
ترک پارلیمنٹ کی عمارت پر گزشتہ سال 15جولائی کو حکومت کے باغیوں نے ایف سولہ طیاروں کے ذریعے بمباری کی تھی وزیراعظم نواز شریف نے عمارت کے اس تباہ شدہ حصے کو دیکھا اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اس جگہ پر پھول رکھے۔
وزیراعظم نواز شریف کے اس دورے کے دوران ترکی نے شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والا کارخانہ لگانے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے دونوں ملکوں نے اس پر بھی اتفاق کیا ہے کہ پہلے سے طے شدہ منصوبوں پر عمل درآمد کی رفتار میں تیزی لائی جائے گی اپنی کامیابیوں کے اعتبار سے وزیراعظم کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت سے لے کر دفاع تک مختلف شعبوں میں تعاون کو عملی شکل دینے کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ثابت ہوگا۔



.
تازہ ترین