• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سارے اردو انگریزی اخبار چھان مارے لیکن کوئی خبر یا تصویر ایسی نہ تھی جوکالم کے لئے انسپائر کرتی یا کم از کم لکھنے کےلئے تھوڑا بہت ہی موٹی ویٹ کرتی۔ اتفاق ایسا ہے کہ کالم اورمضمون یا مضمون نما کالم بھی پھیکے پھیکے ہی تھے۔ سو فیصلہ یہ کیا کہ ’’کرنٹ افیئرز‘‘ وغیرہ سے پرہیز کرتے ہوئے ’’مستقل نوعیت‘‘ کے کسی موضوع پر مغز کھپائی کی جائے اوراگرمستقل نوعیت کا یہ موضوع اکثریت کے لئے بھی دلچسپی کا باعث ہو تو سونے پر سہاگہ۔آپ نے بھی انگریزی کا وہ محاورہ ضرور سنا ہوگا جس کے مطابق ’’وہ گھر ہر وقت روشن روشن رہتا ہے جس میں بچے موجود ہوں کیونکہ بچے بتیاں بجھانا بھول جاتے ہیں‘‘ سو اسی مسئلہ کا سامنا کبھی مجھے بلکہ ہمیں بھی تھا۔ مجھ سے زیاد ہ بچوں کی ماں چڑا کرتی تھی کہ ہزار بار سمجھانے کے باوجود یہ باز نہیں آتے۔ ذرا سختی کرو تو چند روز کے لئے ہدایات نامہ پر عمل ہوتا ہے لیکن آہستہ آہستہ پھر وہی کام شروع ہو جاتا ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ پر میں اکثر بچوں کی سائیڈ لیتا کہ ان کو اندازہ نہیں کہ بجلی کتنی مہنگی ہے۔ جس پراہلیہ کو مزید غصہ چڑھتا کہ ہر غلطی پر یہ کہتے ہوئے اسے نظرانداز کردینا کہ ’’ابھی بچہ ہے‘‘ ایک انتہائی نامعقول رویہ اور غیرذمہ دارانہ سوچ ہے کیونکہ سمجھانے، سکھانے، بتانے کی تو عمر ہی یہ ہے۔ تربیت ہوتی ہی بچپن میں ہے ورنہ عادتیں آہستہ آہستہ راسخ ہو کر بچے کی ’’سیکنڈ نیچر‘‘ بن جاتی ہیں۔جس سے وہ بالغ ہو کرچاہے بھی تو پیچھا نہیں چھڑا سکتا ۔ سو بچوں کی ایسی بظاہر چھوٹی چھوٹی حرکتوں کو نظرانداز کرتے چلے جانا بچوں سے دشمنی کے مترادف ہے۔ منطق خوب تھی لیکن میں نے پھر بھی ’’ری ایکٹ‘‘ نہیں کیا جو شاید خود میرے اپنے بچپن کا ری ایکشن تھاکیونکہ میرے والد ڈسپلن کے حوالے سے انتہائی سخت گیر آدمی تھے۔ نتیجہ کے طور پر میں نے ضرورت سے زیادہ نرمی اختیار کئے رکھی لیکن ایک بار بھلے وقتوں میں ’’بیلی پور‘‘ والے گھر میں جب بجلی کے بل ایک خاص حد سے تجاوز کرنے لگے تو میں مداخلت پر مجبور ہو گیا۔ یہاں تک بھی ’’آفر‘‘ کی کہ چلو یار بلب، پنکھے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اے سی ضرور بند کر دیا کرو لیکن مجال ہے جو کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ بچوں نے پریکٹس جاری رکھی۔تنگ آ کر میں نے ایک دلچسپ فیصلہ کیا۔ ہر مہینے پہلی دو تاریخ کو بچے باجماعت ’’پاکٹ منی‘‘ بطور ’’بچہ ٹیکس‘‘ وصول کرتے جو میرے بچپن کے برعکس ’’جگا ٹیکس‘‘ سے کم نہ ہوتا کہ ہمارے زمانے میں تو چونی (چار آنے) یا اٹھنی (آٹھ آنے) ہی بڑی بات تھی جبکہ اب معاملہ مل ملا کر ہزاروں میں تھا کہ کینٹین پہ برگر ڈیڑھ سو اور کولڈ ڈرنک اتنے کا تو مہینے کے بنے اتنے ہزار وغیرہ۔ میں نے سب بچوں کو ’’پاکٹ منی‘‘ کے ساتھ ساتھ ایک ایک لائٹر بھی پیش کیا۔ وصولی کے بعد رسمی قسم کا ’’بابا تھینک یو‘‘ کہہ کر بچے اٹھے تو میں بھی ان کے ساتھ ہولیا اور کہا ’’آئو لان میں چلتے ہیں۔‘‘ لان میں جاکر میں نے کہا ’’ذرا اپنا اپنا پاکٹ منی اورلائٹر تو نکالو‘‘ بچوں نے حیران ہو کر ایک دوسرے کو دیکھا اور پیسے مع لائٹر میرے سامنے ڈھیر کر دیئے۔ لان میں فرنیچر لوہے کا تھا جو اپنے ’’جنگ‘‘ فیم برادرم شاہین قریشی نے ’’ہانسی حویلی‘‘ میں شفٹ ہونے پرگفٹ کیا تھا۔ میں نے تینوں کی پاکٹ منی علیحدہ علیحدہ کی اور انہی کے لائٹرز سے باری باری پیسوں کو آگ لگا دی۔ بچوں کے بوکھلاہٹ زدہ احتجاج پر میں نے کہا۔’’پاکٹ منی بھی تمہاری، لائٹر بھی تمہارے۔ تم ہر روز یہی کام کرتے ہو، فضول بجلی جلا کر اپنےہی پیسوں کو آگ لگاتے ہو سو جب تک تم بجلی کی صورت میں پیسے کو آگ لگاتے رہو گے، میں ہر ماہ اسی طرح بلکہ تمہاری طرح تمہاری پاکٹ منی کو آگ لگاتا رہوں گا۔‘‘وہ دن جائے آج کاآئے۔ کئی برس بیت گئے میں تو شاید کبھی لائٹ آف کرنا بھول جائوں بچے کبھی نہیں بھولتے۔ بہت ذمہ دار، سمجھدار اور سیانے ہوگئے ہیں۔ ملکوں کے سربراہ بھی عوام کے لئے ’’مائی باپ‘‘ ہی ہوتے ہیں جن کی اولین ذمہ داری عوام کی تعلیم ہی نہیں، تربیت بھی ہوتی ہے لیکن جنہیں خود ڈھنگ سے یہ نصیب نہ ہوا ہو، وہ خاک تربیت کریں گے؟ وہ تو اپنے بچوں کو پینے کا صاف پانی تک نہ دیں گے۔

.
تازہ ترین