• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دبئی کے کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ کا ایک میچ سنسنی خیز لمحات میں داخل ہو چکا تھا۔ بادلوں میں گھرے حسین موسم نے اس کرکٹ میچ کا مزا دوبالا کر دیا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ کاش یہ میچ لاہور یا کراچی میں ہورہا ہوتا تو ہر گیند پر اسٹیڈیم میں ہنسنے اور رونے کی آوازیں بھی آرہی ہوتیں۔ لوگ دیکھتے کہ صرف لاہور والے کوئٹہ کو نہیں رلاتے کبھی کبھی کوئٹہ والے لاہور کے ساتھ ساتھ پشاور والوں کی سانس بھی خشک کر دیتے ہیں۔ میں انہی خیالوں میں گم تھا کہ ایک معروف اداکارہ نے بڑے ولایتی انداز میں مجھے کافی لمبا سا السلام علیکم کہا۔ میں نے خاتون کے سیاہ چشمے کے پیچھے چھپے چہرے کو پہچاننے کی کوشش کی تو انہوں نے فوراً چشمہ اتار کر ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ ’’ہائے‘‘ کہا اور فوراً ہی اپنے مطلب کی بات پر آگئیں۔ فرمانے لگیں آپ کی رائٹ سائڈ پر صرف چند قدم کے فاصلے پر پرویز مشرف صاحب بیٹھے میچ دیکھ رہے ہیں اگر آپ تھوڑی سی تکلیف کریں اور ان کے پاس چل کر میرے ساتھ ایک سیلفی بنوا لیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ یہ سننا تھا کہ میرے دل و دماغ میں بادل گرجنے لگے اور ہنگامہ سا برپا ہوگیا۔ میں نے اس ہنگامے کو سنبھالا اور موصوفہ سے کہا کہ شاید مشرف صاحب کو میرے ساتھ سیلفی بنوانا پسند نہ ہو اس لئے آپ اس خیال کو ذہن سے نکال دیں۔ یہ سن کر اس خاتون نے دعویٰ کیا کہ مشرف صاحب کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا میں آپ کے اور ان کے درمیان پل بننا چاہتی ہوں۔ میری ہنسی چھوٹ گئی تو اپنی فرمائش پر مصر اداکارہ نے ایک لمبا سا ’’پلیز‘‘ کہا۔ یہ پلیز بھی میرے دل کی دہلیز پار نہ کرسکا اور میں نے بڑی عاجزی سے محترمہ سے درخواست کی کہ مجھے کرکٹ میچ دیکھنے دیں۔ انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ اگر میری آپ کے اور مشرف صاحب کے ساتھ سیلفی بن جائے تو وہ سوشل میڈیا پر مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیگی لیکن آپ تیار نہیں تو چلیں میں آپ کے ساتھ ہی سیلفی بنا لیتی ہوں۔ سیلفی بنا کر خاتون غائب ہوگئیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ مجھے اپنی رائٹ سائڈ پر مشرف صاحب کے عقب میں کھڑے ہو کر سیلفیاں بناتی نظر آئیں تو مجھے مشرف صاحب کے ساتھ کچھ ہمدردی محسوس ہوئی کیونکہ اس خاتون کے ہاتھ میں موجود اسمارٹ فون کسی مچھیرے کا ایسا جال تھا جس میں کوئی بھی مچھلی کسی بھی وقت بے خبری میں پھنس سکتی تھی۔
یہ خاکسار دوبارہ میچ میں مگن ہو چکا تھا کہ آٹھ نو سال کے ایک بچے نے بڑی تمیز کے ساتھ ایک سیلفی بنانے کی درخواست کی۔ اس بچے کی آنکھوں پر موجود موٹا سا چشمہ دیکھ کر دل پسیج گیا۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنی کمزور بصارت دیکھ کر دل میں درد سا اٹھا۔ میں نے فوراً اس بچے کے ساتھ سیلفی بنوا لی۔ وہ قریب ہی بیٹھ گیا اور اس سیلفی کو اپنی فیس بک پر لوڈ کرنے لگا۔ مجھے پتہ چل گیا کہ اس بچے کے پاس وائی فائی کا سگنل موجود ہے جبکہ میرے پاس یہ سگنل نہیں تھا۔ میں نے اسے درخواست کی کہ اگر وہ مجھے دو تین منٹ کیلئے وائی فائی دیدے تو میں اپنے ای میل پر ایک پیغام چیک کر لوں گا۔ بچے نے فوراً میرا فون لیا اور اپنے فون سے وائی فائی کا سگنل منتقل کردیا۔ میں نے ایک منٹ کے اندر اپنا پیغام پڑھ لیا اور اس بچے کا شکریہ ادا کردیا۔ اب اس بچے نے کچھ ہمت پکڑی اور فرمائش کی کہ انکل کیا آپ میرے فیس بک فرینڈ بن سکتے ہیں؟ میں نے بچےسے کہا کہ میں فیس بک استعمال نہیں کرتا۔ اس نے جھٹ سے مجھے میرے نام اور تصویر کے ساتھ ایک فیس بک اکائونٹ دکھایا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ جعلی ہے۔ اس طرح کے کئی اکائونٹ جعلی ہیں کبھی کبھی کیپٹل ٹاک کا فیس بک اکائونٹ استعمال کرتا ہوں لیکن میرا کوئی فیس بک فرینڈ نہیں ہے؟ بچے نے حیرانی سے پوچھا کہ پھر آپ کس سے باتیں کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ میرے بہت سے اصلی فرینڈ ہیں اور ان کے ساتھ فیس بک پر نہیں بلکہ آمنے سامنے بیٹھ کر گپیںلگاتا ہوں۔ اس بچے نے کہا کہ فیس بک پر پوری دنیا میں فرینڈ بن سکتے ہیں لیکن آپ کے زیادہ دوست تو صرف ایک ملک یا ایک شہر تک محدود ہونگے۔میں نے مسکرا کر بچے کو نظر انداز کردیا اور میچ دیکھنے لگا۔ اس دوران اس کا باپ بھی آگیا۔ باپ نے بچے کی فیس بک پر میری تصویر دیکھی تو ساتھ والے انکلوژر سے مجھے ملنے چلا آیا اوربتایا کہ اسمارٹ فون اور آئی پیڈ نے اس کے بیٹے کی آنکھیں خراب کردی ہیں۔ یہ سوشل میڈیا جنریشن ہمارے کہنے میں نہیں آتی اور اپنے آپ کو تباہ کررہی ہے۔
اسی رات میں اسلام آباد واپسی کیلئے ہوٹل سے ایئرپورٹ روانہ ہورہا تھا۔ کرکٹر احمد شہزاد لابی میں مجھے الوداع کہہ رہے تھے کہ کچھ پاکستانی نوجوان سیلفیاں بنوانے آگئے۔ احمد شہزاد نے سیلفی بنوانے سے انکار کردیا تو نوجوانوں نے مجھے کہا کہ دیکھیں ان کی گردن میں سریا آگیا ہے۔ یہ سن کر احمد شہزاد نے کہا کہ مجھے کیا پتہ آپ کون لوگ ہیں کل کو آپ میں سے کسی کے ساتھ میری تصویر سوشل میڈیا پر دیکھ کر کوئی بھی مجھ پر اسپاٹ فکسنگ کا الزام لگا دیگا اور میں وضاحتیں دیتے دیتے پاگل ہو جائوں گا۔ احمد شہزاد نے صحیح کہا تھا کیونکہ وہ اتنا طاقتور نہیں کہ اپنی تصویر کا غلط استعمال کرنے والے کو پکڑ کر 14سال کیلئے جیل میں ڈال دے۔ سوشل میڈیا کا منفی استعمال اپنی جگہ، اس کے بہت سے فائدے بھی ہیں لیکن ہمارے ہاں سیلفیاں بنانے کے شوقین حضرات کبھی ٹرین کے نیچے آکر مررہے ہیں اور کبھی بم دھماکوں کے بعد لاشوں میں کھڑے ہو کر بھی سیلفیاں بناتے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں بے اختیار لوگوں کو بااختیار بنا دیا ہے اور بے آوازوں کوآواز دیدی ہے لیکن اس اختیار اور طاقت نے لوگوں کی اصلیت بھی بے نقاب کردی ہے۔ ایک طرف کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمان سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف ایسے بھی ہیں جو سوشل میڈیا کو صرف گالی گلوچ اور نفرتیں پھیلانے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ جس کے اندر جو کچھ بھی ہے وہ سوشل میڈیا پر سامنے آجاتا ہے لہٰذا اپنے اندر موجود گندگی کو بے شناخت رکھنے والے اکثر بدتمیز اور جھوٹے لوگ سوشل میڈیا پر اپنا اصلی نام اور اصلی شکل چھپائے رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ریگولر میڈیا کا یہ وہ فرق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ ٹوئٹر اور فیس بک دنیا کو جوڑ بھی رہا ہے لیکن توڑ بھی رہا ہے۔ فیس بک فرینڈ اسکول، کالج اور گلی محلے کے فرینڈ کا متبادل نہیں بن سکتا۔ یو ٹیوب اور گوگل کاغذ کے اخباروں اور کتابوں کی جگہ نہیں لے سکتے۔ اسمارٹ فون اورکمپیوٹر کا ضرورت سے زیادہ استعمال آپ کو اندھا بنا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا نے جو اختیار اور طاقت ہمیں دیا ہے یہ طاقت ہماری بینائی کیلئے خطرہ ہے احتیاط لازم ہے اپنے آپ کو اندھا ہونے سے بچایئے۔

.
تازہ ترین