• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر وقت حکمرانوں کو کوسنے، ہر لمحے بڑوں کی لوٹ مار کی داستانیں سنانے اور ہر پل چسکے لے لے کر دوسروں کی دو نمبریوں کی تشہریں کرنے والے اگر چند لمحے نکال کر اپنے گریبانوں میں جھانک لیں تو ہر ایک کو اپنے اندر حسبِ استطاعت اور حسبِ توفیق ’’پانامے ہی پانامے‘‘ ملیں۔
پہلے ذرا اپنا گزرا کل ملاحظہ ہو!
زندگی کے آخری دنوں قدرت اللہ شہاب یہ واقعہ اکثر سنایا کرتے کہ’’جس مقام پر اب منگلا ڈیم ہے، یہاں پہلے میرپور کا وہ پرانا شہر ہوا کرتا تھا کہ جو اُن دنوں جنگ کی نذر ہو کر ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا، ایک دن میں ایک مقامی افسر کے ساتھ جیپ میں اسی کھنڈر بنے شہر کے گرد ونواح میں گھوم رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک مفلوک الحال بوڑھے اور اس کی بیوی پر پڑی جو گدھے پر دو بوریاں رکھ کر سڑک پر جارہے تھے، جونہی ہماری جیپ ان کے قریب آئی تو بوڑھے نے ہا تھ کے اشارے سے رکنے کو کہا، ہم رکے تو میلے کچیلے کپڑوں اور ٹوٹے پھوٹے جوتوں والا بوڑھا قریب آکر بولا ’’بیت المال کس طرف ہے؟‘‘ (آزاد کشمیرمیں سرکاری خزانے کو تب بیت المال کہا جاتا تھا) میں نے جواب دینے کی بجائے الٹا اس سے پوچھا ’’آپ بیت المال کا کیوں پوچھ رہے ہیں‘‘ بوڑھے نے لمحہ بھر کیلئے مجھے غور سے دیکھا اور پھر بولا ’’دراصل میں اور میری بیوی نے میرپور شہر کے ملبے سے سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں اور اب میں انہیں بیت المال میں جمع کروانا چاہتا ہوں‘‘ میں نے اسی وقت ایک پولیس اہلکار کو بلوا کر گدھا اس کے حوالے کیا اور بوریوں کو جیپ میں رکھ کر ان دونوں بوڑھے میاں بیوی کو اپنے ساتھ جیپ میں بٹھا کر بیت المال تک لے گیا‘‘، یہاں تک بات سنا کر قدرت اللہ شہاب خاموش ہو کر سر جھکا لیا کرتے اور چند لمحوں بعد جب وہ دوبارہ سر اُٹھاتے تو ان کی آنکھیں بھیگ چکی ہوتیں اور پھر وہ گلوگیر لہجے میں کہتے ’’میں آج تک پوچھتا رہا ہوں کہ میں ان بوڑھے میاں بیوی کے ساتھ سیٹ پر کیوں بیٹھا تھا، مجھے تو انہیں سیٹ پر بیٹھا کر خود ان کے قدموں میں بیٹھنا چاہئے تھا‘‘۔
اب ذرا اپنے ’آج‘ پر ایک نظر ’مار‘ لیں!
چھوٹی باتوں اور معمولی قصے، کہانیوں کو ایک طرف رکھ کر 2005میں زلزلے کی بات کر لیں یا ہر سال آتے سیلاب کا ذکر چھیڑ لیں یا پھر پچھلے 3جہازوں کے حادثوں کا تذکرہ کر لیں، مومنوں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر سب سے پہلے لوٹ مار کی، مرنے والوں کے مال کو مالِ غنیمت سمجھ کر مال سمیٹا، مرے ہوؤں کے ہاتھ اور کان کاٹ کر زیورات نوچے اور کئی مسلمانوں نے تو لاشوں کی جامہ تلاشی تک لی، چلو اسے چھوڑیں، ابھی پچھلے ماہ ایک غیر ملکی کمپنی کے سروے میں پتا چلا کہ ’’وطنِ عزیز کے 60فیصد اسپتالوں میں استعمال شدہ سرنجیں استعمال ہو رہی ہیں، 50فیصد اسپتالوں میں جعلی خون کی بوتلیں لگائی جا رہی ہیں، اپنے 50فیصد کارخانے مضرِ صحت گھی تیار کر رہے ہیں، ہمارا 80فیصد دودھ، دودھ نہیں کیمیکلز کا مرکب ہوتا ہے، ہمارے بیسیوں ہوٹلوں پر دن دیہاڑے گدھوں اور کتوں کا گوشت کھلایا جا رہا ہے، سیوریج کے پانی سے یہاں سبزیاں اگائی جاتی ہیں، شہد کے نام پر یہاں چینی، شکر اور گُڑ کا شیرہ ملے، سرخ مرچوں میں اینٹوں کا بورا، مصالحوں میں جانوروں کی آنتیں،جوسز گلے سڑے پھلوں کا نچوڑ، پھلوں میں میٹھے پانی کے ٹیکے اور تربوزوں میں سرخ رنگ کے انجکشن لگیں اور یہی سروے بتائے کہ ’’90فیصد جان بچانے والی دوائیاں جعلی، گردے اب ڈاکٹر بیچ رہے اور نارمل طریقے سے بچے جننا اس لئے کم ہو رہا کیونکہ اگر نارمل طریقے سے بچہ پیدا ہو گا تو پھر اسپتال مال کہاں سے کمائیں گے‘‘۔
اب آگے بڑھئے، اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب رشوت کو ’چائے پانی‘ کہا جائے، ناقص میٹریل سے بنی عمارتیں جب گرتی ہیں تو ملبا بنی لاشوں کو اللہ کی رضا سمجھ کر دفنا دیا جائے، اسی ملک میں ایک طرف 48افراد جب جہاز حادثے میں جانیں گنوا بیٹھیں تو محکمے کا سربراہ بڑی معصومیت سے کہہ دے ’’ہمیں تو بڑی امید تھی کہ جہاز ایک انجن سے لینڈ کر جائیگا‘‘، یہ اپنا ہی ملک کہ جہاں ایک طرف سندھ کے 40فیصد اور بلوچستان کے 80فیصد علاقوں میں جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پئیں، وہ بھی اگر خوش قسمتی سے کوئی گھا ٹ مل جائے اور یہاں ایک طرف صرف بھتہ نہ ملنے پر 3سو انسانوں کو زندہ جلادیا جائے، لیکن دوسری طرف یہ ظلم و بربریت بڑے صبروشکر سے سہتی ایسی مخلوق کہ جن کے صحنوں میں تو بھوک اور محرومی ناچ رہی لیکن وہ خود ’دیکھو دیکھو کون آیا‘ کی تھاپ پرمحوِ رقص، اب کیا یہ بے انصافی سہنے اور غلامیاں کرنے کے قصور وا ر بھی حکمراں اور بڑے ہی؟ ذرا اپنی تابعداری تو دیکھئے کہ پنجاب کا 60فیصد بجٹ جب اکیلے لاہور پر لگ جائے تو بنیادی سہولتوں تک سے محروم 7کروڑ بھوکے ننگے، مٹی کے مادھو بنے رہیں،یہاں جیلوں اور حوالاتوں میں سینکڑوں افراد ناکردہ گناہوں کی سزا یوں بھگتیں کہ ابھی چند ہفتے پہلے جب سالہا سال قید بھگت کر ایک قیدی جیل میں مر کر دفن بھی ہو گیا تو ایک عدالت بولی ’’ارے وہ تو بے قصور تھا‘‘ اور پھر ہمارے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے، ہمارے 10کروڑ لوگ کم خوراکی کا شکار، ہمیں اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام کیلئے بھی خوار ہونا پڑے اور ہمیں جائز کام کیلئے بھی رشوتیں دینا پڑیں مگر روزانہ بے عزتیاں کروا کر ہم پھر بھی ہر جرم کے بعد وکٹری سائن بناتے ’ٹا ٹا بائی بائی‘ کرتے مجرموں کے صدقے واری جا رہے، اب بتائیں چپ چاپ یہ سب سہتے رہنا، کیا یہ قصور بھی ہمارے بڑوں کا ہی؟
چلو اگر طبقہ اشرافیہ کے ان کرتوتوں پر اپنی لمبی چپ کو جہالت یا بزدلی سمجھ کر نظر انداز بھی کردیں تو بھی ہمارا بہت کچھ ایسا کہ جو ہضم نہ ہوسکے، جیسے کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جو قائد اعظم کے مزار کی بیسمنٹ میں غیر شادی شدہ ’جوڑوں‘ کو کرائے پر کمرے دیتے پکڑے گئے، کیا یہ ہم ہی نہیں جو بچوں سے زیادتی اور قبروں میں دفن مردوں کو بھی نہ بخشیں، کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جن کی زبانیں جھوٹ کی عادی ہو چکیں، غیبت جن کا طرہ ٔ امتیاز، الزام تراشی اور بہتان کے جو چیمپئن اور خوشامد اور جی حضوری میں جو پی ایچ ڈی، کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جن کے پڑوسی تو بھوکے لیکن ہم عمرے پہ عمرے کئے جا رہے اور جو بہنوں، بھائیوں کا حق مار کر الحاج بن چکے، کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جن کی آنکھوں میں شرم نہیں، جنہیں اپنی زبانوں پر کوئی کنٹرول نہیں اور اگر کوئی غرض ہو تو دشمن بھی باپ اور اگر مطلب نہ ہو تو سگا باپ بھی اجنبی، کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جن کا اپنا اپنا مذہب اور ڈھائی اینٹ کی اپنی اپنی مسجد اور کیا یہ ہم ہی نہیں کہ جو بظاہر تو امت مسلمہ کے ٹھیکیدار مگر اصل میں گلی اور محلے دار بھی ہم سے تنگ اور پھر حضورِ والا! مسجدوں اور مدرسوں کے نام پر کروڑوں جمع کر کے لاکھوں بھی نہ خرچنے والے، سود پر قرض دے کر اصل رقم سے زیادہ سود بٹورنے والے،
پٹواری کو ملا کر کمزوروں کی زمینیں ہڑپ کر جانے والے، بڑی چالاکی سے بے کار مال کو کار آمد پیکنگ میں مہنگے داموں بیچنے والے، آنکھ بچا کر ناپ تول میں کمی بیشی کر جانے والے، سرِ عام قلم بیچنے اور ببانگ دہل جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا دینے والے اور پیسوں کیلئے ملکی وقار تک کو داؤ پر لگا دینے والے، یہ سب کون ہیں، کیا یہ سب صرف حکمراں ہی کر رہے یا پھر یہ سب کوئی ہم سے بندوق کے زور پر کروا رہا، نہیں حضورِ والا نہیں، یہ سب ہم ہی کر رہے، اور یہ سب کچھ ہم اپنی مرضی اور اپنی منشا سے کر رہے اور روز کر رہے، تبھی تو کہہ رہا ہوں کہ ہر وقت حکمرانوں کو کوسنے، ہر لمحے بڑوں کی لوٹ مار کی داستانیں سنانے اور ہر پل چسکے لے لے کر دوسروں کی دو نمبریوں کی تشہیریں کرنے والے اگر چند لمحے نکال کر اپنے گریبانوں میں جھانک لیں تو ہر ایک کو اپنے اندر حسبِ استطاعت اور حسبِ توفیق ’’پانامے ہی پانامے‘‘ ملیں۔

.
تازہ ترین