• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
انیس سو نوے کی دہائی میں سندھ پر جام صادق علی کی حکومت تھی جو خود کو اسلام آباد میں صدر غلام اسحاق خان کا ایس ایچ او کہلاتا تھا۔ پی پی پی ہی کے بطن سے سیاسی طور پیدا ہونیوالا جام صادق علی سندھ میں بے نظیر بھٹو، اس کے شوہر اور خاص طور پر پی پی پی کے جیالے کارکنوں اور لیڈروں کے لئے بہت سے کیسوں میں ضیاءالحق سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوا تھا۔ جام نے اس وقت کے صدر اسحاق کے داماد عرفان اللہ مروت کو سندھ میں داخلہ کا مشیر اور تمام ریاستی جبر اور نام نہاد قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سیاہ و سفید کا مالک بنایا ہوا تھا۔ جام صادق علی جو خود الذوالفقار کے بانیوں میں سے تھا اب الذوالفقار کے نام پر سپاف اور پیپلز یوتھ چاہے پی پی پی کے نوجوانوں کے پیچھے اجل کا فرشتہ ثابت ہوا تھا اور یہ جو لوگوں کو غائب کرنے کی گویا قومی پالیسی بن چکی ہے، اس ریاستی کلچر کی شروعات تو ایوب خان اور پھر قائد عوام کے ہی زمانے سے پڑ چکی تھی لیکن سندھ میں جام صادق علی کی حکومت میں کئی نوجوان غائب کر دیئے گئے تھے۔ خاص طورپر مرتضیٰ بھٹو گروپ کے یا پھر وہ جن پر بینظیر بھٹو کے خلاف الذوالفقار کی حمایت میں اعترافاتی بیانات دلوانے کو بےپناہ تشدد کیا گيا تھا۔ کئی پی پی پی رہنما اور کارکن اٹھالئے گئے تھے۔ کئی جیلوں میں بند تھے، یہاں تک کہ جام صادق علی کا یار غار شاہنواز جونیجو اور ان کے اپنے ہی ضلع سانگھڑ میں پی پی پی کے جیالے صدر کے جیالے بیٹے قاضی ممتاز اور لیاری سے علی محمد ہنگورو سمیت یہ سب لوگ الذوالفقار کے نام پر قید رکھے گئے۔ قائم علی شاہ جیسے رہنما کو ایم کیو ایم کے استقبالیہ کیمپوں پر فائرنگ کے مقدمے میں ’’فریم‘‘ کیا گيا تھا۔ جام بینظیر بھٹو کو بھی سنگاپور ہائی جیکنگ کیس میں ’’فریم‘‘ کروانا چاہتے تھے لیکن یہ ان کی بس چھٹی حس تھی کہ انہوں نے ان ہائی جیکروں کا فون نہیں سنا جن کا مطالبہ تھا کہ وہ بینظیر بھٹو سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
انیس سو نوے کے انتخابات میں دھاندلیوں کا خود اعتراف مرحوم نگراں وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی نے اپنی زندگی میں ہی کرلیا تھا۔ لاڑکانہ شہر کو چھوڑ کر باقی سارے سندھ میں جھرلو پھیر دیا گيا تھا اور یہی وجہ ہے کہ تیس سال تک پی پی پی سندھ کے اقتدار سے باہر رہی۔ حالانکہ سندھیوں کا اکثریتی ووٹ اسے پڑا تھا۔ اسمبلی میں یک نشستی جام صادق علی نے اسلام آباد اور راولپنڈی کی اشیرباد سے خاص طور سابق صدر غلام اسحاق خان کی اشیرباد سے خود کو سندھ کا وزیراعلیٰ چنوایا اور اس نے اس کے داماد عرفان اللہ مروت کو سندھ کا مشیر داخلہ بنایا۔ سیاسی وفاداریاں بدلوانا ہوں کہ کسی کو خریدنا یا جبر قید و تشدد جام کی ہر پالیسی اور خواہش پر عمل ہوتا تھا۔ سندھیوں کے سروں سے ضیاء الحق گیا کب تھا! بس چولے بدلے تھے اس نے۔ اب بھی یہی حالات ہیں۔
یہ جو کراچی کی صورتحال کچھ عرصہ قبل تک تھی یا اب بھی ہے اس کے پیچھے جہاں ہاتھ مجازی یا حقیقی ایم کیو ایم یا ریاستی غیرریاستی دیگر قوتوں کا ہے وہاں اس میں اچھا خاصا کردار خود عرفان اللہ مروت کا بھی ہے۔ یہ لیاری کا نام تو عبث بدنام ہوا لیکن گینگسٹر سعید مائٹی کی مبینہ طورپر اسپتال میں موت نے کلفٹن پل کے اس پار بھی سنسنی دوڑا دی تھی۔ معروف تھیٹر نگار خالد احمد نے کراچی کے ان دنوں کے حالات پر ایک ڈرامہ ’’یہاں سے شہر کو دیکھو‘‘ بھی لکھا اور ااسٹیج کیا تھا۔ میں اس تھیٹر میں اپنے کچھ کام کرنے والے دوستوں سے کہا کرتا ’’یہاں سے شہر کو دیکھو پھر وہاں سے پنڈ کو دیکھو۔‘‘
وینا حیات کیس کسے یاد نہیں؟ پی پی پی خواتین ورکروں اور کارکنوں کی عورتوں خاص طور پر غریب عیسیٰ بلوچ کی بیوی خورشید بیگم کے ساتھ ریاستی عقوبت گھروں میں تشدد اور زیادتیاں جام اور مروت کے ہی ایما پر ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب بینظیر بھٹو کے ہی کہنے پر ایک دفعہ ایاز امیر نے جام صادق علی سے پی پی پی خواتین کے ساتھ دوران تشدد ان کے اعضا میں نمک اور مرچیں ڈالے جانے کے مبینہ واقعات کا تذکرہ کیا تو جام نے ان سے کہا تھا ’’ہم ابھی مہذب ہوگئے ہیں کہ ہم نمک مرچوں کی جگہ ٹوباسکو ساس استعمال کرتے ہیں۔‘‘ عرفان مروت کے قریبی ڈی آئی جی سمیع اللہ مروت کو سی آ ئی پولیس کا ڈی آئی جی بنا دیا گیا تھا اور یہ سب کچھ سمیع مروت اور اس وقت کے چند افسران کے ہاتھوں اور ان کی نگرانی میں ہو رہا تھا۔
یہاں تک کہ جناح اسپتال کے نفسیاتی شعبے میں داخل پولیس ٹارچر کی شکار ذہنی صدمے سے دوچار خواتین پی پی پی کارکنوں کو اسپتال سے نکال باہر کرنے کے لئے ملک کے ممتاز نفسیاتی ماہر اور شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ہارون پر بھی ناکام دبائو ڈالے گئے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت کی نواز شریف حکومت اور خاص طور پر ان کے آئی بی کے ڈائریکٹر کو بھی ایسی کارروائیوں سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کراچی میں میں عرفان اور سمیع مروت کا دور اب جنرل شفیق رپورٹ میں تھانہ بہ تھانہ کی بنیاد پر محفوظ ہے۔ ظاہر ہے کہ باقی کمیشنوں کی طرح جنرل شفیق رپورٹ پر کبھی عمل نہیں ہوا جس میں یہ بھی بتایا گيا تھا کہ کراچی میں تھانے کس طرح نیلام ہوتے ہیں؟ اور پولیس کس طرح بھتہ وصول کرتی ہے؟ کچھ دن سمیع اللہ مروت کو لیپا پوتی کیلئے جیل بھیجا گيا۔ سمیع اللہ مروت جیل سے رہا ہو کر پھر غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے رجسٹرار بنادیئے گئے، بہت دن ہوئے کہ سنا تھا کہ وہ اپنے گائوں لکی مروت کے پاس سے اغوا ہو گئے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ شہلا رضا اور شیری رحمان کو عرفان مروت کی پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت کی خبریں کیسی لگتی ہوں گی کہ شیری رحمان کی زیرادارت ماہنامہ ’دی ہیرالڈ‘، رضیہ بھٹی کے ’’نیوزلائن‘‘ اور رحمت شاہ آفریدی کے فرنٹیئر پوسٹ جیسے پرچے تھے جنہوں نے مروت برادران اور سی آئی اے پولیس یا جام صادق کے ہاتھوں سندھ میں مخالفین یا شہریوں کے ساتھ زیادیوں کو مشتہر طشت از بام کیا تھا، لیکن یہ جاننے والوں کے لئے شاید زیادہ اچھنبے کی بات نہ ہوگی کہ جو کئی دنوں سے عرفان مروت کو بلاول ہائوس آتے جاتے دیکھتے رہے ہیں۔ اگر جام صادق علی زندہ ہوتے تو شاید وہ بھی پی پی پی (زی) میں شمولیت کرچکے ہوتے۔ آصفہ اور بختاور کی اس پر تشویش فطری بات ہے لیکن تاریخ کچھ اور بتلاتی ہے۔
فوجی آمر ضیاءالحق کے دنوں میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف بے نظیر بھٹو سرگرم ہوئیں تو وہ سندھ کے دورے پر نکلی تھیں۔ بدین کے دورے کے دوران انہوں نے اس وقت پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما اور سابق ایم پی اے نبی بخش بھرگڑی کی طرف سےچائے پارٹی میں شرکت سے انکار کردیا تھا جب پارٹی کارکنوں نے انہیں بتایا تھا کہ بھرگڑی صاحب کے پاس حاکم علی زرداری آئے تھے جو ان دنوں بھٹو کی پھانسی اور ضیاءالحق کی حمایت میں سندھ کے دورے پر نکلے ہوئے تھے۔ پھر آپ نے دیکھا کہ تاریخ کتنی بے رحم چیز ہے!

.
تازہ ترین