• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایشیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا دل ہے،جبکہ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال افغانستان کو ایشیاکا د ل سمجھتے تھے۔علامہ اقبال نے 100سال قبل اس کے بارے میں پیش گوئی کی تھی کہ یہاں پر بڑی بڑی قوتیں آکر لڑیں گی مگر کوئی بھی یہاں پر قدم نہیں جماسکے گا اور پھر وقت نے ثابت کیا دنیا کی سپر پاورز تورا بورا کی پہاڑیوں پر دن رات مسلسل کارپٹ بمباری کرتی رہیں مگر افغانیوں کے عزم کو متزلزل نہ کرسکیں۔ایک انگریز مصنف نے لکھا تھا کہ افغانیوں سے زیادہ مزاحمتی قوم کرہ ارض پر پیدا نہیں ہوئی۔حکمرانی کی صلاحیتوں پر ناز کرنے والے برطانوی بھی یہاں آکر لڑے مگر پھر جو کچھ ان کے ساتھ ہواوہ تاریخ کا حصہ ہے۔لال جواہر نہرو اپنی کتاب Glimpses of World History میں اسکا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں کہ افغانستان کے کٹھن حالات اور ٹھوس مزاحمت کے بعد جب برطانوی افواج واپس بھاگ رہی تھیں تو شدید سردی اور نامساعد حالات کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد برطانوی فوجیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے ،بلکہ نہرو کا تو یہ کہنا ہے کہ برطانوی کوہ نور ہیرا بھی افغانستان سے چھین کر گئے ہیں۔اس کے علاوہ روس اور اب امریکہ کے ساتھ اس دھرتی کے لوگوں نے کیا کیا ،کچھ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
افغانستان کی تاریخی و جغرافیائی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آج پاکستان بھی دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان کی سرزمین سے جوڑ رہا ہے مگر پاکستانی اداروں کا شکوہ ہے کہ افغان بھائیوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو پنا ہ دی ہوئی ہے اور افغان حکومت ان کارروائیوں میں رکاوٹ ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج کل افغان حکمرانوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کی قربت حاصل ہے۔افغانستان جیسے ملک میں بھارت کے ڈیڑھ درجن سے زائد قونصلیٹ سب کچھ بتانے کے لئے کافی ہیں۔وہ افغانستان جس کے بے یارو مددگار شہریوں کو وطن عزیز نے اپنی آغوش میں 30سال تک پناہ دی ہے۔آج وہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں کا حصہ ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا افغان قیادت کے را سے تعلقات کو جواز بنا کر افغانستان سے تمام تعلقات ختم کردئیے جائیں؟ کیا افغانستان کے ساتھ جنگ یا کشیدہ تعلقات کے ساتھ پاکستان میں امن قائم رہ سکتا ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں امن براہ راست افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔لیکن آج ہمیں کچھ حقائق کو جان کر آگے بڑھنا ہوگا۔اس خطے میں پاکستان اور بھارت روایتی حریف ہیں۔دونوں ممالک بیشک اس وقت جنگ سے بہت دور ہیں مگر کشیدگی برقرار ہے۔بھارت کبھی بھی نہیں چاہتا کہ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان دنیا کے سامنے آسکے۔اس کے لئے ہمسایہ ممالک کو ساتھ ملا کر پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اگر ہم اپنے گریبان میںجھانکیں تو بہت سی خرابیاں موجود ہیں۔کسی ہمسائے سے ہمارے تعلقات مثالی نہیں ہیں۔جس افغانستان کو ہم اپنا دایاں بازو سمجھتے تھے،ہمیں پتہ بھی نہیں چلا وہ بھارت کے قریب ہوتا چلا گیا۔ہماری غفلتوں اور انا نے افغانیوں کو ہم سے بہت دور کردیا۔ہم بھول گئے کہ بھارتی پیسے اور ڈالرز کی بے بہاریل پیل نے افغانیوں کو بدل کر رکھ دیا ۔بے شک افغانستان کے آج کے تمام سربراہان کی نشوونما پاکستان میں ہوئی ہے مگر اب بات وہ نہیں رہی تھی۔افغانی اب پاکستان سے بدلا ہوا لہجہ چاہتے تھے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی اداروں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ احسان کرکے اس کے صلہ کی توقع نہیں لگانی چاہئے۔نیکی کر دریا میں ڈال والی مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے گھر کی فکر کرنی چاہئے۔ہمارے تلخ لہجے اور جارحانہ انداز سے اب افغان حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔آپ جتنا زیادہ سخت موقف دکھائیں گے افغانی اتنا ہی بھارتیوں کے قریب ہوتے چلے جائیں گے۔زیادہ دور مت جائیں۔ایک ہفتہ قبل ہونے والی کشیدگی کا جواب افغانستان نے یہ دیا ہے کہ اقتصادی تعاون تنظیم کی سربراہ کانفرنس میں افغان صدر شرکت نہیں کررہے۔دیکھا جائے تو اس ساری صورتحال میں افغانیوں کا کوئی نقصان نہیں ہونا۔افغانی بارودکی خوشبو کے عادی ہوچکے ہیں۔گزشتہ تیس سالوں کے دوران شاید ہی ایسا کوئی دن ہو جب انہوں نے بمباری کی گھن گرج نہ سنی ہو۔خودکش دھماکے یا پھر سڑکوں پر لہو،یہ سب ان کے لئے معمول کاحصہ ہے۔جہاں افغانیوں نے روس اور امریکہ کی دو دہائیوں پر مشتمل بمباری برداشت کی وہاں ہماری بھی ایک ،دو سال کی کارروائیاں برداشت کرنا ناممکن نہیں ہے۔لیکن اگر یہ سلسلہ وطن عزیز میں چل نکلا تو ہماری بنیادیں ہلا کر رکھ دے گا۔اگر مستقبل میں بھی افغان سرزمین یونہی پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی تو ہم کبھی بھی دہشت گردی کا راستہ نہیں روک سکیں گے۔اب حالیہ دہشت گردی کی لہر کو ہی دیکھ لیں۔جونہی لاہور میں پی ایس ایل فائنل کی باز گشت سنائی دینے لگی،لاہور سمیت پورے ملک کو دھماکوں سے لرزا دیا گیا۔پاکستان میں کرکٹ بحالی کا سب سے بڑا نقصان بھارت کو ہوگا۔ کئی ممالک کو معاشی طور پر نقصان ہوگا۔اس لئے بھارت سمیت سب مل کر افغانیوں کو استعمال کرتے ہیں۔آج کے حالات تقاضا کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کے ساتھ برابری کی سطح پر نئے تعلقات کا آغاز کریں۔جو عزت افغان حکمرانوں کو بھارت کی طرف سے ملتی ہے ،ہمیں اپنے ملک کو بچانے کے لئے اس سے زیادہ عزت دینا ہوگی۔یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارے ہاتھ بڑھانے سے افغانستان بھارت سے ہاتھ کھینچ لے گا ۔لیکن یہ ضرور ہوگا کہ ہمارے خلاف اپنی زمین استعمال نہیں ہونے دے گا۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ ہماری سرزمین پر کوئی ایسا گروہ یا شخص موجود نہ ہو ،جو افغان حکمرانوں کے لئے ناپسندید ہ ہو۔پاکستان میں دائمی امن کے لئے بھارت اور ایران سے ہاتھ ملانا ہوگا۔یہ بہترین موقع ہے ایران صدر پاکستان میں موجود ہیں۔قومی اداروں اور وزیراعظم پاکستان کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے کہ ایرانی صدر کے گزشتہ دورے کی ناخوشگواریادوں کا ازالہ کرلیا جائے۔ایرانی صدر کی ایک سال میں دوسری مرتبہ آمد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ایران ہم سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ہمیں بھارت سمیت تمام ہمسائیوں کے ساتھ بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا چاہئے اور اس سلسلے کا آغاز افغانستان سے کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

.
تازہ ترین