• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیر کے روز محترم سلیم صافی کا کالم پڑھتے پڑھتے ابھی سردھن ہی رہا تھا کہ کیسے انہوں نے ایک بارپھر جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ زیادہ ترمذہبی انتہاپسندی کی جڑیں پنجاب میں پائی جاتی ہیں ابھی ان کو پڑھ ہی رہا تھا کہ ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نے اپنے سامنے بیتے ہوئے کچھ واقعات بھی دنیا کو بتاکر یہ ثبوت دیا جائے کہ اس وقت جتنے لوگ پشتو بول رہے ہیں وہ سارے پختون نہیں بلکہ ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اس علاقے میں افغان جہادکے لئے آکر اسے اپنا مسکن بنایا، یا وہ افغان طالبان کے ساتھ رہے اورجب زیرعتاب آکے افغانستان سے پاکستان آئے تو خود کو مقامی آبادی کا حصہ بنانے کے لئے انہوں نے پشتو سیکھی یا ان کا تعلق پھر ان غیرملکی ایجنسیوں سے تھا جنہوں نے اپنی شناخت چھپانے کے لئے پشتو سیکھی۔ یہ ساری کہانی ان وقتوں کی ہے جب دنیا کی بڑی طاقتوں نے بھی پاکستان میں اپنے وہ سفارت کار اور جاسوس تعینات کئے جنہیں پشتو آتی تھی۔ دہشت گردی پختونوں کی اپنی پیداوار نہیں بلکہ ان کے گلے ڈالی گئی ہے یا جولوگ اسے کررہے ہیں وہ خود براہ راست پختون نہیں بلکہ پختون تو وہ بدقسمت لوگ ہیں جوان کی کارستانیوں کی وجہ سے ان کی کارروائیوں کا بھی شکار ہیں اورپاکستان میں ان کے گناہوں کے لئے باقی قومیتوں کو جواب بھی دینے پرمجبورہیں۔
غالبا 1996کا سال تھا جب ہمیں پشاورسے صحافیوں کی ایک گاڑی میں بیٹھ کرطورخم پاروہاں افغان طالبان کی کامیابیوں کا نظارہ دیکھنے کا اتفاق ہوا وہاں زیادہ ترلوگ پشتوبولنے والے تھے تاہم ان میں ایسے بھی تھے جواردو بول رہے تھے اوران کو پشتو بولنا نہیں آتی تھی لیکن وہ پشتو سے اتنے بھی نابلد نہیں تھے ان میں سے کچھ نے ہمیں دیکھ کر کچھ پشتوبھی بولی اوریوں ہمیں پتہ چلا کہ وہ پختون ہیں تو نہیں البتہ یہاں رہتے رہتے پشتو سیکھ چکے ہیں اورمسلسل سیکھ رہے ہیںاور وہ پاکستان کے وہ شہری ہیں جوروس کے خلاف لڑتے لڑتے اب اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہش میں طالبان کے ساتھ آملے ہیں۔
پھرکافی سال گزرے ہمیں میڈیا کے ایک لشکر کے ہمراہ ہی جنوبی وزیرستان کی تحصیل وانا جانے کا اتفاق ہوا جہاں پرپاکستان کے خلاف ہتھیاراٹھانے کو گناہ سمجھنے والے طالبان کمانڈرمولوی نذیر اوران کے ساتھیوں کاسکہ رائج تھا انہوں نے حال ہی میں لشکرکشی کرکے وانا کو ازبک، تاجک اوردیگرغیرملکیوں سے خالی کروایا تھاعلاقہ تو پختونوں کا تھا لیکن یہاں بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں تھی جوپشتونہیں بول سکتے تھے اوروہ اردواورپنجابی پرہی گزارہ چلاتے تھے،یہ ان دنوں کی بات ہے جب دہشت گردی کی مصیبت وزیرستان کے حوالے سے صوبہ خیبرپختونخوا اورگردونواح میں ابھی متعارف ہوئی تھی اوروزیرستان کی پہچان پورے ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے کروائی جاتی تھی جب پورا پاکستان وزیرستان کو دہشت گردی کا گڑھ اورذمہ دارسمجھ رہا تھا اوربندوبستی علاقوں میں رہنے والے ہم جیسوں کو وزیرستان کے لوگ ایسے جن اوربھوت لگتے تھے جنہیں خون پینے کی لت پڑچکی ہو اس دورے کے دوران عجیب اتفاق ہو ا کہ و انا میں رہنے والے قبائلیوں نے ہم تمام میڈیا والوں سے ایک ایسی شکایت کردی کہ دماغ نے کام چھوڑ دیا ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے توجیسے تیسے نمٹ لیں گے لیکن خدا کے لئے ان پنجابیوں سے ہماری جان چھڑائو (پختونوں کی ایک ہی کمزوری ہے کہ وہ اس وقت تک ہر غیرپختون کو پنجابی ہی سمجھتے تھے) یہ ’’پنجابی‘‘ ایک طاقتور اور رسوخ کے حوالے سے سب سے بااثرنظرآرہے تھے۔
پھرجب راولپنڈی میں بے نظیربھٹوکوشہید کیا گیا تواس کا الزام اس وقت کے تحریک طالبان پاکستان کے امیربیت اللہ محسود پرلگا طالبان نے اس الزام کی صفائی کے لئے جنوبی وزیرستان میں بیت اللہ محسود کے گھر کے قریب ایک اسکول میں پریس کانفرنس رکھی ہمیں بھی میڈیا کے ایک لشکرکے ہمراہ اس پریس کانفرنس میں جانے کا موقع ملا۔ بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایک رات پہلے ہی ہمیں بنوں سے براستہ شمالی وزیرستان یعنی رزمک اورمکین سے ہوتے ہوئے سرہ روغہ کی تحصیل کے راستے غورلامہ لے جایا گیا۔ شمالی وزیرستان ہی میں ہماری گاڑی کے سامنے سے ایک موٹرسائیکل سوارکچھ اس تیزی سے اوورٹیک کرگیا کہ سب گھبراگئے ہمارے ساتھ موجود ایک مقامی شخص نے اس موٹرسائیکل والے کو آواز دی جس نے خالص پشتومیں جواب بھی دیا اورچلتا گیامیں نے اس مقامی شخص سے پوچھا یہ کون تھا اس نے بتایا کہ یہ ان غیرملکی ازبکوں میں سے ایک ہے جویہاں رہتے ہیں اورکسی مقامی شخص کو ان کے سامنے پَرمارنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ میں نے پوچھا یہ پشتوکیسی صاف بول رہا تھا تواس کا کہنا تھا کہ ان سب نے پشتوسیکھ لی ہے۔
بات کچھ طویل ہورہی ہے لیکن ایک حوالے کے لئے پشاورکے ایک مسجد کے اس پیش امام کا ذکرکرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کے نام کے ساتھ پاکستانی کا ذکرتھا اوروہ بھی ایک خاص عربی اندازمیں، ہم نے ان کا نام ایک خاص وجہ سے سامنے آنے پروجہ پوچھی کہ پاکستانی لکھنے کی ضرورت کیوں ہے توبتایاگیا کہ وہ صاحب پاکستانی نہیں ہاں البتہ اپنی مرضی سے انہوں نے پاکستان کو اپنا مسکن چن لیا ہے اس لئے وہ اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لگاتے ہیں۔ انہوں نے بھی پختہ پشتوسیکھی تھی اوران پر غیرپشتون ہونے کا گمان تک نہیں ہوتا تھا وہ پشتو میں اپنے خطاب کے جوہردکھاتے تھے۔
ان سب کی موجودگی کے بہت سارے جواز توتھے لیکن کیاکسی کو یاد نہیں کہ امریکی خفیہ ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس نے بھی تو پشتوسیکھ رکھی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب میں بھی ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی پائی جاتی ہے جوپیدا توپنجابی ماں کے بطن سے ہوئے لیکن انہیں پشتوبولنا آتی ہے کراچی میں ایسے بہت سارے لوگ موجود ہیں جنہیں پشتوبولنا آتی ہے خود عربوںکو پشتوآتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ اب پاکستان کے غیر پختون علاقوں میں رہنے والے پختون پشتو نہیں بولتے جن میں سے بہت سارے اسے پسماندگی کی علامت سمجھتے ہوئے اس پر شرمساری محسوس کرتے ہیں۔ پشتو بھی کتنی بے چاری زبان ہے کہ کسی بھی دوسری زبان کا بولنے والا اسے سیکھ کر ٹھیک بول سکتا ہے ہاں البتہ پیدائشی پشتون جب کوئی اور زبان بولے توفوراً پکڑا جاتا ہے۔

.
تازہ ترین