• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سردار صاحب دائیں بائیں گرتے پڑ رہے تھے کبھی وہ ایک طرف کو ڈولتے تو کبھی دوسری طرف ڈول جاتے، ایک گزرتے شخص نے دیکھ کر کہا سردار جی آج تو بڑے ’’ٹن‘‘ پھر رہے ہیں کیا بات ہے ، کچھ زیادہ ہی چڑھا گئے ہیں ، سر دار صاحب نے چلتے ہوئے جواب دیا’’ نہیں اجے تے لین چلیا آں‘‘ (نہیں ابھی تو لینے جارہاہوں) ان دنوں پاکستانی قوم کا حال بھی ان سردار صاحب سے مختلف نہیں ہے ہر شخص کرکٹ کے نشے میں’’ ٹن‘‘ پھر رہا ہے کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہوگا۔ نجم سیٹھی سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ انہیں ضرور دینا پڑے گا کہ انہوںنے تمام تر خدشات اور روکاوٹوں کے باوجود پہلے پی ایس ایل کا انعقاد کرایا اور اب دوسری پی ایس ایل میں انہوںنے فائنل لاہور میں منعقد کرانے کیلئے جو جدوجہد کی ہے وہ سب قابل تعریف ہیں اور اس کی وجہ سے پاکستان میں کرکٹ کے شائقین فائنل سے پہلے ہی ’’ ٹن‘‘ ہوئے پھرتے ہیں، کرکٹ کا ہر شائق پاکستان سپر لیگ کے فائنل کو دیکھنے کیلئے بے چین نظر آتا ہے ، فائنل کا اعلان ہوتے ہی کچھ سیاسی رہنمائوں نے اختلافی بیانات بھی دیئے ہیں، حفظ ماتقدم کے تحت یہ بیانات کتنے ہی دور اندیشی اور عقل کے تقاضوں کے مطابق کیوں نہ ہوں مجھے ذاتی طور پر ان سے سخت اختلاف ہے ، اگر ہم پاکستان سپر لیگ کا فائنل کرانے سے بھی ڈرتے ہیں یا ہچکچاتے ہیں تو پھر ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم دہشتگردوں کو ختم کرنے اور ان کے اداروں کو نیچا دکھانے کے دعوے کرتے پھریں، یہ درست ہے کہ دہشتگردی کے حوالے سے بہت سے خدشات موجود ہیں اور اس وقت تو یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ دہشتگرد ہمارے درمیان رہ رہے ہوں ہمارے جیسا حلیہ بنا رکھا ہو اور دہشتگردی کی واردات کے دوران خود کو بچانا نہیں بلکہ اڑانا ہوتا ہے لیکن ایسے میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل کرانا بہت ہی اچھا اور بہادری کا قدم ہے لیکن اس فیصلے اور بہادری کے کچھ تقاضے ہیں ان تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے بالکل غلطی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے ، گزشتہ روز میں نے دیکھا کہ شائقین کرکٹ کس طرح ٹکٹوں کیلئے بے تاب ہورہے تھے ، لیکن انہیں ٹکٹ نہیں مل رہے ، اور جس طرح وہ ٹکٹ کیلئے اکٹھے ہورہے تھے وہاں بھی خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے میچ کے انعقاد کے جو تقاضے ہیں ان میں میچ سے پہلے کے دن بھی بہت اہم ہیں، میچ والا دن بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اور میچ کے انعقاد کے بعد جب سب جشن منا رہے ہونگے ، اس وقت زیادہ الرٹ رہنے کی ضرورت ہوگی میں سمجھتا ہوں جہاں نجم سیٹھی صاحب کی تعریف کی ہے وہاں میچ سے پہلے کرکٹ کے شائقین سے ان کی طرف سے بھی ایک ’’دہشتگردی‘‘ ہوگئی ہے ، کرکٹ کی اصل رونق وہ تماشائی ہوتے ہیں جو اس کھیل کو پذیرائی دیتے ہیں ، اپنے نعروں، سیٹیوں، باجوں اور ڈھول ڈھمکوں سے میچ کے دوران میلے کا سماں باندھ دیتے ہیں میچ کتنا بھی اچھا اور کانٹے دار ہو، اگر اسٹیڈیم خالی ہو تو میچ پھسپھسا لگتا ہے ، لیکن ان کیلئے کم سے کم پانچ سو روپے کے ٹکٹ اور پھر ہزاروں روپے کے ٹکٹ مقررکردینا یقینا شائقین پر ’’باؤنسر پھینک دہشتگردی‘‘ ہے۔یہ سب کہتے اور جانتے ہیں کہ کرکٹ کا کھیل ہماری قوم کی رگوں میں خون کی طرح شامل ہے اور جب بھی پاکستان کی قوم ٹیم اہم میچ جیتی ہے تو خیبر سے کراچی تک جشن ہوتا ہے اور ان جشن منانے والوں کو بھی جب کچھ دینے کا وقت ہوتا ہے تو ہم انہیں کرکٹ سے دور کردیتے ہیں ، یہ درست ہے کہ اسٹیڈیم میں گنجائش کے مطابق تماشائی بیٹھ سکتے ہیں لیکن ان کے شوق کو اس طرح بھاری رقوم کے عوض محدود کردینا زیادتی ہے ، ماں باپ اپنے بچوں کو کیسے سمجھائیں گے جو پہلے یہ آس لگا کر بیٹھے تھے کہ فائنل پاکستان میں ہواور اب یہ آس لگا کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ بھی اسٹیڈیم جاکر فائنل دیکھیں گے، اس پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ پوری قوم کی یہ دعا ہے کہ فائنل میچ اچھے اور بحفاظت طریقے سے انجام کو پہنچے ،تا کہ پاکستان اور اس کی پوری قوم کے ساتھ ساتھ سارے ادارے بھی سرخرو ہوں۔

.
تازہ ترین