• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے معروف دانش ور جناب سجاد میر نے پائنا کے زیرِ اہتمام قومی سیمینار کی نظامت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے امریکہ کے خلاف بغاوت کر دی ہے اور ہم اس کا تجزیہ کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ علم السیاسیات کے پروفیسر جناب شبیر احمد خاں نے کہا کہ صدر ٹرمپ جمہوری طور پر منتخب ہو کر آئے ہیں، اس لیے ہمیں انہی کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں گے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ ہمارے ہاں ایک ایسا ہمہ وقتی وزیرِخارجہ ہونا چاہئے جو سفارت کاری کی نزاکتوں کے علاوہ کارپوریٹ کلچر کے تقاضوں کو بھی پوری طرح سمجھتا ہو۔ صدر ٹرمپ کی ٹیم کے تین اہم ارکان سابق جرنیل ہیں، اس لیے ہمیں ایک ایسا سفیر امریکہ بھیجنا چاہئے جس کا پس منظر فوجی بھی ہو۔ ہمارا اس وقت پورا فوکس دہشت گردی کے خاتمے پر ہونا چاہئے۔
فعال سیاسی کارکن جناب محمد مہدی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امریکہ میں قیادت کی تبدیلی سے خوف زدہ ہونے کے بجائے خود اعتمادی سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایک مضبوط حکمت ِعملی تیار کرنا ہو گی۔ ہمیں سب سے پہلے ان افراد اور ان تنظیموں کی نشان دہی کرنی چاہئے جو پاکستان کے مفادات آگے بڑھانے کی صلاحیت اور جذبہ رکھتی ہیں۔ ہمیں لابنگ کے لیے ایک مضبوط ٹیم تیار کرنا ہو گی۔ ٹرمپ کے وزیرِ دفاع پاکستان کی طرف واضح جھکاؤ رکھتے ہیں۔
راقم الحروف نے پائنا کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات میں بڑے نشیب و فراز آئے ہیں، تاہم دونوں ملکوں کے روابط میں چند حقائق بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ پہلا یہ کہ قیامِ پاکستان میں امریکہ نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ برطانوی وزیراعظم چرچل برصغیر کو آزادی دینے اور اسے تقسیم کرنے کے حق میں نہ تھے، لیکن دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی اور جاپان کے ہاتھوں تباہی اور امریکی دباؤ کے باعث پاکستان وجود میں آیا۔ اس کی پہلی تقریبِ آزادی میں امریکی وفد سب سے بڑا اور بہت پُرجوش تھا۔ 1950ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں امریکی دورے پر گئے، تو امریکی صدر نے اپنی پوری کابینہ کے ہمراہ ایئرپورٹ پر اُن کا استقبال کیا تھا۔ آج پاکستان کی فوج دنیا کی بڑی افواج میں شمار ہوتی ہے۔ اس میں امریکی تعاون کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ امریکہ کے دستور کی تیاری میں تھامس جیفرسن سب سے پیش پیش تھے۔ امریکی دستور میں انسانی عظمت، مساوات، آزادی اور بنیادی حقوق کے جو ناقابلِ تغیر عناصر موجود ہیں، یہ انہوں نے قرآنِ حکیم کے مطالعے سے ترتیب دیے تھے جس کا نسخہ آج بھی نیشنل میوزیم کے اندر محفوظ ہے۔
سیاسی تجزیہ کار جناب قیوم نظامی نے اِس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ امریکہ میں ریاستی ادارے عوامی مفاد کی حفاظت میں نکل آئے ہیں۔ ’بابو نگر‘ کے مصنف جناب حسین احمد شیرازی کی نظر میں اکیسویں صدی میں مسلمان ملکوں کے اندر تباہی اور بربادی کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، وہ بیسویں صدی کے اس فلسفے کے عین مطابق ہے جو سیموئیل ہینٹنگٹن (Samuel Huntington)نے اپنی کتاب ’تہذیبوں کے تصادم‘میں پیش کیا تھا۔ ہمیں اپنے اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور دانش کے ساتھ اپنے معاملات چلانا ہوں گے۔ پنٹاگان میں پاکستانی ڈیسک پر چالیس پی ایچ ڈی کام کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر جناب فاروق حسنات کی رائے میں صدر ٹرمپ ایک ناقابلِ اعتبار شخص ہیں جو امریکی اقدار پامال کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی جس ٹیم کا انتخاب کیا ہے، اس میں زیادہ تر نسل پرست اور مسلم دشمن افراد شامل ہیں۔ اُن کے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے جن سات مسلم ملکوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں صرف مسلمان شامل ہیں جبکہ غیرمسلم وہاں سے آسکتے ہیں۔ مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر مارون نے پاکستان کو صد رٹرمپ کے شر سے محفوظ رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
سفارت کار جناب جاوید حسین کے خیال میں چار بنیادی عوامل پاک امریکی تعلقات میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں جن پر صدر ٹرمپ بہت زیادہ اثرانداز نہیں ہو سکیں گے۔ ان میں سب سے زیادہ اہمیت دہشت گردی کو حاصل ہے۔ امریکہ اس کے خاتمے کے لیے پاکستان سے تعاون بھی کرنا چاہتا ہے، مگر ساتھ ساتھ اسے اس مسئلے کا حصہ بھی سمجھتا ہے۔ پاکستان کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ جو اس کی ریاستی پالیسی ہے، برسرِ زمین اسی پر عمل ہو رہا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں کوئی ایسی دہشت گرد طاقت قابض نہ ہو جائے جو ایک بار پھر اسے نائن الیون کے حادثے سے دوچار کر دے۔ پاکستان پوری تن دہی سے افغانستان میں امن قائم کرنے میں کوشاں ہے اور اس سلسلے میں اسے روس اور چین کا تعاون حاصل ہے۔ ہمیں اصل خطرہ اس آویزش سے ہے جو امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکہ چین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے بھارت کو اکیسویں صدی کی عالمی طاقت بنانا چاہتا ہے۔ یہی پہلو ہمارے لیے حددرجہ تشویش ناک ہے۔
تاریخ کے شناور جناب ایس ایم ظفر نے مشورہ دیا کہ ہمیں سپر پاور کی دشمنی مول لینے کے بجائے تاریخ کو اپنا فیصلہ کرنے کا موقع دینا ہمارے لیے زیادہ بہتر ہو گا۔ اب امریکہ نے بھارت کی طرف دوستی اور نیاز مندی کے رشتے استوار کرکے پاکستان سے دوری کی بنیاد رکھ دی ہے جو ہمارے لیے ایک نعمتِ غیرمترقبہ ثابت ہو گی۔ امریکہ عالمی قیادت سے دستبردار ہو رہا ہے اور چین، روس اور پاکستان کے لیے اسپیس دیتا جا رہا ہے۔
ہمارے انتہائی ذہین اور حددرجہ فعال وزیر جناب احسن اقبال نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے انتخاب سے ایک زلزلہ سا آ گیا ہے، مگر وہ اب منتخب صدر ہیں اور ہم اُن کا احترام کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے جناب وزیراعظم نوازشریف سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اُن کے ساتھ کام کرنے میں خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اس وقت ہمیں اور امریکہ کو جو مسائل درپیش ہیں، ہم اُن کو حل کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ خوش دلی سے تعاون کر سکتے ہیں۔ دہشت گردی جو ایک عالمی چیلنج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے، اس پر قابو پانے میں پاکستان نے لازوال قربانیاں دی ہیں اور ہمارے فوجی اور سول اداروں نے اپنی شجاعت اور مہارت کا لوہا بھی منوایا ہے۔ اسی طرح ایک پُرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کی طرح امریکہ کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہم وہاں امن لانے کی مخلصانہ کوششیں کرتے آئے ہیں۔ امریکہ میں سفید فام شہریوں کے لیے روزگار کا مسئلہ ہے۔ پاکستان امریکی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دے سکتا اور اپنی صنعتوں کو امریکی سپلائی کا حصہ بنا سکتا ہے۔ جناب وزیراعظم نے اپنے دورۂ امریکہ میں نالج پارک قائم کرنے کا معاہدہ کیا ہے جس کی رُو سے ہم ہر سال دس ہزار لوگ پی ایچ ڈی کے لیے امریکہ بھیجیں گے اور اُن کے لیے بجٹ میں رقم بھی رکھ دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چین پاک اقتصادی راہداری نے ہمارے خطے کے علاوہ دوسرے ممالک کے لیے بھی ترقی اور مواصلاتی رابطوں کے دروازے کھول دیے ہیں جبکہ ہماری کامیاب خارجہ پالیسی کے طفیل آج ہمارے چین، روس، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ نہایت خوشگوار تعلقات استوار ہو رہے ہیں۔ دنیا کے تمام معتبر اور مستند جرائد ہماری معاشی ترقی اور استحکام کے روشن پہلوؤں کی تعریف کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک اُبھرتی ہوئی معاشی طاقت اور دفاعی قوت ہے۔
امریکہ کی سیلیکون وادی سے تعلق رکھنے والی اور طریقِ تعلیم میں انقلاب برپا کرنے والی معزز خاتون محترمہ صباحت رفیق نے صدر ٹرمپ کی کامیابی کا نہایت پُرمغز تجزیہ پیش کیا اور یہ پہلو نمایاں کیا کہ ری پبلکن پارٹی کی کامیابی یقینی تھی جبکہ امریکہ کی مسلم تنظیموں نے ٹرمپ کے خلاف ایک غیر حکیمانہ روش اختیار کی۔ اُن کے خیال میں ری پبلکن پاکستان کے قریب ہیں اور اُن کے چالیس فی صد متاثرین مذہب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ فائدہ صدر اوباما کی ہم جنس پرستی کی پالیسی سے پہنچا۔ مذاہب کے ساتھ ڈائیلاگ کے ذریعے پاکستان میں امریکی قیادت کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔
شرقِ اوسط کے دانش ور جناب جاوید نواز نے کہا کہ ہم صدر ٹرمپ کے حددرجہ شکرگزار ہیں کہ انہوں نے امریکہ بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو بیدار کر دیا ہے۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں امریکہ میں ہیں اور ہمیں ان سے جدید علوم و فنون کے خزینے حاصل کرنے کے لیے حکمتِ عملی تیار کرنی چاہئے۔

.
تازہ ترین