• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بات انتہائی دکھ اور افسوس سے کہنی پڑرہی ہے کہ ہمارے وہ بھائی جو برصغیر کی تقسیم کے بعد سندھ کے دارالحکومت کراچی میں آکر رہنے لگے اور وہ کراچی کو ’’میرا کراچی‘‘ کہہ کر کراچی سے اپنے عشق کا اظہار کرتے ہیں ان میں سے کچھ بھائی جن کا تعلق ایک نسلی تنظیم سے ہے‘ نعرے لگاتے ہیں کہ ہم کراچی کو صوبہ بنائیں گے اور ساتھ ہی ’’سندھ کو تقسیم ‘‘ کرنے کی بات بھی کرتے ہیں‘ ان کی آج تک اس بات کی طرف توجہ نہ گئی کہ کراچی کو کیا خطرات لاحق ہیں اور کیوں ہیں اور ان خطرات سے کراچی کو کیسے بچایا جاسکتا ہے‘ سب سے پہلے میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ سندھ کے لوگوں کو کراچی کے ان بھائیوں کی یہ بات بہت پسند ہے کہ وہ کراچی سے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں ‘ کراچی تو ہے ہی عشق کرنے کے لائق‘ اس وجہ سے سندھ کے لوگ کراچی کو نہ فقط سندھ کا چہرہ مگر سندھ کی جان اور جگر سمجھتے ہیں مگر سندھ کے لوگ ان سے بھی تو محبت کرتے ہیں جو 1947 ء کے بعد کراچی میں آکر بسے اور اب وہ کراچی کے باسی ہیں‘ سندھ تو دھرتی ہی ایسی ہے کہ جہاں دریائے سندھ اور سمندر ہیں جن میں پانی بہتا ہے مگر سندھ میں ایک اور دریا اور ایک اور سمندر بھی تو ہے جس میں پیار ہی پیار ہے‘ یہ پیار انسانوں سے کیا جاتا ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے اور یہاں کے لوگوں کی تربیت انسان سے محبت کے اصول کے تحت کی گئی ہے‘ کیا یہ بات غلط ہے کہ جب ہمارے بھائی تقسیم کے بعد ہندوستان سے آئے تھے تو یہاں کسی سندھی نے ہمارے ان بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ بھی یہ ضد نہ کی کہ ان کے ساتھ فقط سندھی میں بات کی جائے‘ وہ تو خود ٹوٹی پھوٹی اردو میں ان بھائیوں سے گفتگو کرتے رہے حالانکہ سندھی زبان کی ایک لاثانی تاریخ ہے مگر ان کو زبانوں سے نفرت کی بجائے محبت کرنا سکھایا گیا لہٰذا سندھیوں نے کبھی بھی اس بات پر احتجاج نہیں کیا کہ ان سے سندھی میں بات کیوں نہیں کی جاتی یہ اور بات ہے کہ شہروں سے دور دیہی علاقوں میں جو ہمارے یہ بھائی آکر آباد ہوئے وہ خودبخود سندھی بولتے تھے‘ وہ ہمارے ساتھ اسکولوں میں پڑھے‘ ان کی اور ہماری سندھی میں کوئی فرق نہیں تھا‘ اب اردو بولنے والے بھی سندھی ہیں‘ ان کی زبان اردو ہے تو کیا ہوا‘ ہوسکتا ہے کہ آئندہ ایک سو سال میں سندھی اور اردو کا ایسا ملاپ ہو کہ ان کے جڑنے سے ایک نئی زبان وجود میں آجائے‘ دنیا میں ایسا ہوا ہے‘ یہ کتنا اچھا ہوگا کہ جب یہ ایک قوم ہوکر آگے بڑھے گی تو ایک طرف ان کے پاس شاہ لطیف ‘ سچل سرمست اور شیخ ایاز کے خیالات اور تصورات ہوں گے تو ساتھ ہی ان کے پاس مرزا غالب‘ میر تقی میر‘ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کا فیض بھی ہوگا‘ میں چھوٹا تھا اور اسکول میں تھا تو میرے ایک استاد جو حقیقت میں ایک دانشور تھے وہ اکثر سندھی قوم کی کئی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کرتے تھے کہ وقت آئے گا جب سندھی قوم ساری دنیا کی قیادت کرے گی اگر قیادت نہ کرسکی تو سندھی قوم دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ قوموں کی اگلی صف میں ہوگی مگر اب جبکہ اردو بولنے والے یہ ہمارے بھائی آکر ہم سے ملے ہیں اور وہ بھی اسی سندھی قوم کا حصہ ہیں تو پتہ نہیں مجھے اکثر یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ اب تو یہ قوم واقعی ساری دنیا کی قیادت کرے گی جہاں تک کراچی کو لاحق خطرات کا تعلق ہے تو فی الحال میں کراچی کو لاحق سب سے زیادہ خطرناک خطرے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ بین الاقوامی ماحولیاتی سائنسدانوں کی ایک رپورٹ کے مطابق خدانخواستہ کراچی2060 ء تک سمندر میں ڈوب جائے گا جس کے نتیجے میں کراچی کے باشندے جن کی تعداد اس وقت شاید دو کروڑ ہو وہ بھی سمندر برد ہوجائیں گے۔ اس خطرے کے حوالے سے حال ہی میں پارلیمنٹرین کا ایک اجلاس اسلام آباد میں ہوا تھا جس سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی (این آئی او) کے سربراہ ڈاکٹر آصف انعام نے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں سینیٹ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ قیامت‘ اگر خدانخواستہ کراچی پر نازل ہوتی ہے تو‘ اس کے اسباب میں آب ہوا کی تبدیلیاں‘ بغیر منصوبہ بندی کے ترقی اور دریائے سندھ پر ڈیموں کی تعمیر ہوگی۔ ڈاکٹر انعام کے مطابق سندھ کے تین شہروں کراچی‘ ٹھٹھہ اور بدین کو تو سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے شدید خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر Deltas کی طرح انڈس ڈیلٹا کے لئے Sea Intrusion کی طرف سے خطرہ بھی ایک حقیقت ہےلہذا انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان Space and upper atmospere research commission کی وساطت سے ڈیلٹا کے تازہ ترین Images حاصل کریں تاکہ خطرے کا صحیح اندازہ لگاکر فوری طور پر صورتحال کو درست کرنے کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جاسکیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے بدین اور ٹھٹھہ اضلاع کے کئی سمندری کنارے والے وسیع علاقے سمندر برد ہوچکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کراچی کے ملیرکا ایک خاص علاقہ پہلے ہی سمندری پانی کے نیچے آگیا ہے اور اگرضروری اقدامات نہیں کیے گئے تو شہر بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ این آئی او کے سربراہ نے یہ بھی خبردار کیا کہ صوبہ بلوچستان کے سمندری کنارے کے شہر جن میں گوادر کی بندرگاہ بھی شامل ہے اسے بھی سمندری سطح کے اوپر آنے سے شدید خطرہ ہے۔ بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق اس بات کا یقین ہے کہ اگر آئندہ پچاس سال تک پاکستان کے سمندری کنارے پر سمندر کی سطح کا بلند ہونا جاری رہتا ہے تو انڈس ڈیلٹا کے وسیع علاقے سمندر برد ہوجائیں گے۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ہمالیہ سے دریائے سندھ کے ذریعے وسیع پیمانے پر SEDIMENT نیچے لایا جاتا ہے اور نچلے حصوں میں جمع ہوجانے کی وجہ سے دنیا کا ایک بڑا ڈیلٹا وجود میں آجاتا ہے مگر تشویشناک بات یہ ہے کہ دریائے سندھ پر ڈیم بننے سے Sediment Load اور ساتھ ہی نیچے جانے والے پانی کے بہائو میں بھی کافی کمی آگئی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ کے اوپر والے حصے میں انجینئرنگ ورکس اور ڈیم بنائے جانے کی وجہ سے دریا میں نیچے پانی کے بہائو میں خاصی کمی آچکی ہے۔ اس کے نتیجے میں Sea Intrusion ہوسکتا ہے۔ پاکستان فشر فوک فورم کے سربراہ سید محمد علی شاہ نے این آئی او چیف کے سربراہ کے ان اندیشوں کی حمایت کرتے ہوئے دریائے سندھ کے اوپر ڈیم بنانے اور لنک بنانے کو لوئر سندھ اور کراچی کی تباہی کا باعث قرار دیا ہے۔ میں چاہوں گا کہ کراچی کی ایک لسانی تنظیم کے کچھ رہنما جن میں خاص طور پر ڈاکٹر فاروق ستار شامل ہیں اپنی آراسے آگاہ کریں کہ کراچی اور اس کے عوام کو بچانے کے لئے کیا کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں انہوں نے کیا کوششیں کی ہیں۔

.
تازہ ترین