• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت بڑے عظیم ادبی میلے میں موجود ہزاروں نوجوان، لڑکیوں اور کئی برقع میں ملبوس لڑکیوں کو دیکھ کر بہت خوش اوربہت پریشان بھی آئی ہوں۔ اچھا لگا کہ جب لوگ کتابیں خرید کر لاتے تھے تو آٹو گراف لیتے تھے۔ سوال پوچھتے تھے، باتیں کرتے تھے، ہر سیشن میں اتنی خلقت ہوتی تھی کہ بچے تو زمین پر بیٹھ جاتے تھے۔ بیسیوں لوگ دیواروں کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوجاتے تھے، یہ کوئی مزاحیہ پروگرام نہیں تھے۔ یہ ادبی اور خاص کر ذہنی آزمائش کے پروگرام تھے کہ 70 سال ہونے کو آئے ابھی تک ہم نہ معاشی طور پر نہ معاشرتی طور پر اور نہ ذہنی طور پر اپنے ملک کو اور انڈیا کو بھی اس سطح پر نہیں دیکھتے جہاں ہم خود کو فخریہ ہندوستانی یا پاکستانی کہہ سکیں۔ کئی سیشن میں تو نوجوانوں نے یہ سوال بھی اٹھائے کہ اگر یہاں دہشت گردوں کو مسلسل پناہ دی جاتی رہی اور کہا جاتا رہا کہ ہم نے پاکستان کو دہشت گردی سے آزاد کرالیا ہے۔ دوسری طرف انڈیا میں اکبر کی فتوحات کو رانا پرتاب سنگھ کے نام سے نصاب میں تحریر کیا جارہا ہے اور آج کے رہنما ان کا بس چلے تو مغلوں کی تاریخ پر سیاہی پھیردیں۔
ان دونوں ملکوں کے حالات سامنے آنے پر، سوالات کے ضمن میں ایک دفعہ نہیں بار بار نوجوانوں نے کہا کہ اگر ذرا سی آزادی سے دونوں ملکوں میں کوئی بلاگر کچھ لکھ دے تو عدم برداشت کی تو حد یہ ہے کہ وہ غائب کردیا جاتا ہے۔ میڈیا پر بقول نوجوانوں کے ایجنٹوں کا قبضہ ہے سیاست میں منافقت بھری ہوی ہے، نوجوانوں کے لئے کوئی پروگرام، کوئی مستقبل نہیں ہے۔ میں پلٹ کر دیکھتی تھی تو اس میں اردو، سندھی، بلوچی اور پٹھان سارے بچے شامل تھے، بار بار ان کی جانب اشارہ کررہے تھے۔ جن دہشت گردوں کو خیر سے بین الاقوامی شہرت ہے، سب کو معلوم ہے کہ وہ کہاں ہیں؟ نہ ان کو پکڑا جاتا ہے اور نہ ان کے کارندوں کو۔ غور کرنے کی بات یہ تھی کہ چاہے رضا ربانی بول رہے ہوں کہ پرویز ہود بھائی کہ عائشہ جلال، بات گھوم کر اسی سوال پر آجاتی تھی کہ ہمیں یہ لوگ اور ان کی طرز حکمرانی کب تک سہنی پڑے گی۔ مشاعرے میں بھی حمیرا رحمٰن جو امریکہ سے آئی تھیں اور نسیم سید جو کہ کینیڈا سے آئی تھیں، ان کی شاعری میں ہمارے ملک کی طرز حکمرانی پر افسوس کی لکیریں تھیں۔مگر جب سینئر بیورو کریٹس نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم ہارنے کے بعد انگریز کو واپس وطن جانے کی جلدی تھی۔ ہمیں یعنی ہندوئوں اور مسلمانوں کو جنون کی حد تک اپنا ملک بنانے اور شاید حکومت کرنے کی جلدی بھی تھی۔ جب ہی تو قائداعظم نے کہا تھا کہ جیسا کٹا پھٹا ہمیں پاکستان ملا، ہم نے اسی پر اکتفا کیا۔ گورداسپور پاکستان میں آنا تھا مگر انڈیا کو کشمیر کے لئے راستہ چاہئے تھا اس لئے گورداسپور، انڈیا کو دیدیا گیا۔ جذباتی انتہا ہی نے ایک طرف قتل و غارت کی نحوست پھیلائی اور دوسری طرف پراپرٹی حاصل کرنے کے خبط نے حاکموں سے لےکر عوام کی بنیادوں میں خلل ڈال دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انگریز نے جاتے ہوئے پورا نظام دونوں ملکوں کو باقاعدگی اور سلیقے سے کیوں نہیں سپرد کیا۔ انہوں نے تو دل میں سوچا ہوگا کہ بھاڑ میں جائیں ان کو انگریزوں سے آزادی چاہئے، مریں یا جئیں، ہمیں کیا مطلب۔ ان باتوں پر غور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اگلی کانفرنس میں اس موضوع پر بات چیت کی جائے۔
اس دفعہ کئی اسکولوں کے بچے آئے، وہ چھوٹے بچے جو ڈرائنگ کرنا چاہتے تھے۔ پروگرام میں پہلے ہی 38 سیشن شامل تھے،ویسے بھی بچوں کی کانفرنس مختلف شہروں میں ہونے لگی ہے۔ اس کانفرنس کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ فہمیدہ ریاض کی دو کتابیں قلعہ فراموشی اور تم کبیر ہو، ان کا افتتاح ہوا۔ سب لوگ اس تقریب میں شامل ہوئے کہ آج کل فہمیدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، سب کی دعا تھی کہ وہ ٹھیک ہو کر یونہی لکھتی رہے جیسا کہ اب تک مسکراتی اور ہنستی رہی ہے۔اس کانفرنس میں ڈھاکہ سے مہمان شبنم بھی آئی تھیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بوڑھوں سے لے کر جوانوں تک سیلفی بناتے ہوئے کبھی گرتے کبھی اوندھے ہوجاتے، یہ سلسلہ دنوں چلا۔ سب کو ہی اچھا لگا جب شبنم نے اپنے لاہور کے قیام کو زندگی کا حاصل کہا اور اپنے شوہر کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔
یو بی ایل والوں نے بھی ایک سیشن میں 2016ء کے ادیبوں کو انعامات دیئے۔ لطف کی بات یہ تھی کہ جس وقت یوسفی صاحب کو یاد کیا جانے لگا وہ داخل ہوئے، انہیں احمد شاہ بڑی محبت کے ساتھ اندر لارہے تھے اور سب لوگ عقیدت میں ان کے لئے کھڑے ہوگئے تھے۔ اسی طرح کی عقیدت کا اظہار ہر جگہ زہرہ آپا کے لئے بھی کیا گیا۔
امینہ سید جو آکسفورڈ کے ادارے کی سربراہ ہیں، وہ ہر سیشن میں آتیں، خاموشی سے تھوڑی دیر بیٹھتیں، پھر دوسرے سیشن میں چلی جاتیں جبکہ آصف ہر سیشن میں ہونے کے باوجود یوں خوش نظر آرہے تھے جیسے دولہا اپنی برآت دیکھ کر مسکراتا رہتا ہے۔ ہمیں بھی دو شخصیات جو ہندوستان سے آئی تھیں، وہ بہت عزیز رہیں۔ ایک تو گلکرنی صاحب جنہوں نے قصوری صاحب کی کتاب کی تقریب کی تھی اور انتہا پسندوں نے ان کے منہ پر کالک مل دی تھی۔ دوسری شخصیت تھی اروشی بٹالیہ، جس نے پاکستان ہندوستان میں رہ جانے والے مرد اور خواتین کا حال لکھا، جس کا دنیا بھر میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ سین ایک نوجوان شاعر تھے، جن کا مجموعہ کلام انگریزی میں شائع ہوا ہے۔ لکھتے بھی بہت اچھا ہیں اور جس وقت اردو کا مشاعرہ ہورہا تھا، اسی وقت برابر کے کمرے میں انگریزی کا مشاعرہ ہورہا تھا جو نوجوان لکھنے والوں کے لئے مخصوص تھا، اس کو سننے ہم جیسے لوگ بھی گئے۔ حیرت اس بات پر تھی کہ میڈیا کا نقشہ کھینچتے ہوئے انہیں صرف ریپ اور جنسیات سے متعلق فقرے لکھنے کا بہانہ ملا۔ شاید ابھی قلم نے سنجیدگی نہیں سیکھی تھی۔

.
تازہ ترین