• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم خود بے وقوف بنیں تو الگ بات ورنہ تو دشمن نے اپنے ارادے کھل کر سامنے رکھ دئیے ہیں۔ واضح کر چکا ہے کہ روایتی فوج سے جنگ لڑنے کی بجائے وہ پاکستان کے اندر لسانی نفرتوں کو ہوا دے گا، مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر پاکستانی قوم میں نفاق کو بڑھا کر آپس میں لڑوائے گا۔سول ملٹری تنائو کو بڑھاوا دے کر تصادم کی طرف لے جانے کی کوشش کرے گااور سب سے بڑھ کر یہ کہ پسماندہ علاقوں کی پسماندگی اور وہاں کے عوام کی محرومیوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے پراکسیز کے ذریعے ان علاقوں کو میدان جنگ اور پھر پورے ملک کے لئے درد سربنائے گا۔دشمن کے یہ منصوبے اور ارادے بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کی مشہور زمانہ ویڈیو خطاب کی صورت میں بھی واضح ہوگئے تھے اور مغربی ممالک کے تھنک ٹینکس کی رپورٹوں سے بھی عیاں ہیں۔ فاٹا، پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور کراچی کے حالات سے توزمین پر بھی نظر آنے لگا کہ دشمن کا منتخب کردہ آپشن اب روایتی جنگ کا نہیں بلکہ اس غیرروایتی فساد اور ذہنی انتشار ہے ۔اس تناظر میں پاکستان کے دفاع کا تقاضا یہ تھا کہ حکومت اور سلامتی کے ادارے مذکورہ عوامل کی طرف ہی توجہ دے کر قوم کو متحد کرتے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چند سالوں میں جو کچھ ہوتا رہا ، اس سے دشمن کا ہی کام آسان ہوتا رہا۔ میاں نوازشریف کی حکومت شاید پاکستان کی جمہوری تاریخ کی پہلی حکومت ہے کہ جس میں تمام اہم وزارتیں ایک مخصوص علاقے کے پاس ہیں اور وفاقی کابینہ میں سندھیوں اور قبائلیوں کی کوئی نمائندگی نہیں ۔ بیوروکریسی کے سب اہم مناصب بھی ایک مخصوص علاقے کو عنایت کئے گئےہیں۔ گوادر، گلگت بلتستان، جنوبی پنجاب ، سندھ اور پختونخوا میں لوگ بنیادی ضروریات کے لئے تڑپتے رہے جبکہ دوسری طرف اسلام آباد اور لاہور میں ایسے عیاشانہ منصوبے شروع کئے گئے کہ جن کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کے لوگ اپنے آپ کو کسی اور ملک کا شہری سمجھنے لگے ۔ کراچی سے لے کر گلگت تک اور فاٹا سے لے کر گوادر تک دشمن جہاں جہاں سرگرم رہا، وہ علاقے وزیراعظم کی توجہ کا کبھی مرکز نہ بن سکے ۔ سندھ کے لئے گورنر مقرر کرتے وقت یہ تک نہیں دیکھا کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل ہیں یا نہیں جبکہ فاٹا کے منتظم گورنر خیبرپختونخوا کے لئے اقبال جھگڑا کواسپتال سے اٹھا کر گورنر ہائوس پہنچا دیا گیا جن کی گورنری اب وہ نہیں بلکہ ان کے عزیز اور ایک چہیتے علی خان یوسفزئی چلارہے ہیں ۔ آئی ڈی پیز جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں کے پختون تھے لیکن بحالی کا انچارج بلوچستان کے جناب عبدالقادر بلوچ کو بنا دیا ،جن کو وہاں جانے کی فرصت ہی نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ کئی سال گزر نے کے بعد بھی آئی ڈی پیزبے گھر ہیں دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔ وزیراعظم کی ساری توجہ اپنے خاندان کی مینجمنٹ پر مرکوز رہی لیکن بارڈر مینجمنٹ کی طرف دو سال تک انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ تقسیم کے خاتمے کے لئے کوششیں تو دور کی بات الٹا ایک طرف پروفیسر ساجد میر اور دوسری طرف عرفان صدیقی جیسے لوگ بٹھارکھے ہوتے ہیں ۔اسلامی نظریاتی کونسل کوسیاسی رشوت کے طور پر مولانا کے حوالے کیا گیا ہے اور آج تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ مدارس کے معاملے کوو زارت داخلہ نے دیکھنا ہے، وزارت مذہبی امور نے یا پھر وزارت تعلیم نے ۔ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور سے دشمن پریشان ہے اور وہ جانتا تھا کہ یہ پاکستان کے محروم علاقوں کے عوام کی محرومیوں کے خاتمے کے لئے تریاق ثابت ہوسکتا ہے لیکن موجودہ حکمرانوں نے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے اس اسٹرٹیجک اور گیم چینجر منصوبے کی شکل یوں بگاڑ دی کہ وہ مزید تقسیم، لسانی نفرتوں اور محروم علاقوں کی محرومیوں میں اضافے کا موجب بنا۔ گلگت بلتستان جو سی پیک کا دروازہ ہے ،کا ہر باشندہ آج بھی یہ سوال کررہا ہے کہ مجھے سی پیک سے کیا مل رہا ہے ۔ گوادر جو سی پیک کی بنیاد ہے کے باسی آج بھی حیران ہیں کہ سی پیک کے تحت لاہور میں تو اورنج لائن ٹرین بن رہی ہے لیکن اسے پینے کا صاف پانی نہیں مل رہا۔ بلوچستان کے عوام کو مطمئن کرنے کی بجائے وہاں کے حکمرانوں کو نواز کر رام کرنا مسئلے کا حل سمجھا گیا ۔ اسی طرح سی پیک سے متعلق خیبرپختونخوا کے عوام کے مطالبات پر کان دھرنے کی بجائے پہلے مولانا فضل الرحمان کو اور پھر پرویز خٹک کو خوش کردیا گیا(زندگی رہی تو عنقریب وہ تفصیلات سامنے لائوں گا کہ کس طرح احسن اقبال صاحب نے روایتی ہوشیاری دکھائی ہے اور کس طرح پرویزخٹک صاحب نے اپنے حلقے کے لئے دو منصوبے لے کر پورے صوبے کے حق پر سودے بازی کی ہے ) ۔عسکری اداروں کے بارے میں بھی یہ سوال ہمیشہ اٹھایا جائے گا کہ جہاں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر حکومت کے بازو مروڑتے رہے ، وہاں انہوں نے سی پیک کے معاملے پر حکومتی ہٹ دھرمیوں میں کوئی رکاوٹ کیوں نہیں ڈالی۔ رہے سول ملٹری تعلقات تو وہ گزشتہ سالوں میں جتنے خراب رہے، ماضی میں شاید اس کی مثال نہیں ملتی۔ حکومت نے عسکری اداروں کو اتنا ناراض کیا کہ دھرنوں کی صورت میں جواب ملا۔ دوبارہ پھر معاملے کو انتہاپر لے گئے تو لاک ڈائون کی صورت میں جواب ملا۔ اس عرصے میں پاکستانی میڈیا دونوں طرف سے یوں بری طرح تقسیم کیا گیا کہ آج جب رات کو انڈیا، افغانستان اور امریکہ کا میڈیا پاکستان کے خلاف یک زبان ہوکر یہاں پر مذہبی اور لسانی نفرتوںکو ہوا دینے میں لگا ہوتا ہے تو پاکستانی میڈیا ایک دوسرے کے خلاف غلاظت پھیلارہا ہوتا ہے ۔
فاٹا ریفارمز کے معاملے کو دیکھ لیجئے۔ دشمن کے ارادوں کے تناظر میں پاکستان کے دفاع کا تقاضا تو یہ تھا کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی فرصت میں فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ ادغام کا عمل شروع کیا جاتا لیکن وزیراعظم صاحب نے دو سال تک کمیٹی بنانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ پھر جب سرتاج عزیز کمیٹی نے رپورٹ تیار کی تو اسے سردخانے میں ڈال دیا گیا۔ دبائو کے بعد وہ رپورٹ ایوان میں پیش کی تو پھر خاموشی چھا گئی۔ دبائو کے بعد اسے کابینہ کے گزشتہ اجلاس کے ایجنڈے میں رکھ دیا گیا لیکن پھر اچانک ایک روز قبل نکال دیا گیا۔ پھر میڈیا کا دبائو آیا۔ فاٹا کے پارلیمنٹرین نے اسلام آباد میں دھرنے کی دھمکی دی ۔ اے این پی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف وغیرہ نے حمایت کا اعلان کیا جبکہ زرداری صاحب نے اسے اپنے اے پی سی کے ایجنڈے میں شامل کیا تو عجلت میں کابینہ کا اجلاس بلا کر منظوری تو دے دی تاہم حسب روایت دودھ دے کر بھی اس میں مینگنیاں ڈالنے کی روایت برقرار رکھی گئی ۔ مثلاً کابینہ نے جن سفارشات کی منظوری دی ہے ، ان کی رو سے عبوری دور کی کمیٹی کی سربراہی سے لے کر ترقیاتی عمل کی نگرانی تک ہر چیز گورنر کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب فاٹا نے صوبے کا حصہ بننا ہے تو پھر یہ اختیار وزیراعلیٰ ، ان کی کابینہ ، صوبائی اسمبلی اور فاٹا کے منتخب اراکین پارلیمنٹ کے ہاتھ میں کیوں نہیں دیا جاتا ۔ گورنر نے اگر یہ کام کرنا ہوتا تو ابھی تک مطلق اختیار کے ساتھ کیوں نہیں کیا اور وہ کیوں کر چاہے گا کہ اپنے اختیارات صوبے کو منتقل کریں بلکہ اس منصب پر بیٹھ کر تو وہ حسب روایت روڑے اٹکائیں گے۔ ہم نے اگر فاٹا کو اٹھا کر خیبرپختونخوا میں لانا ہے تو پھر فیصلہ سازی اور اختیارات میں صوبائی حکومت بھی شریک ہونی چاہئے تاکہ وہ اس کے مطابق اپنے گھر کو بھی درست کرسکے لیکن یہاں عبوری دور کے سارے انتظام سے وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کو باہر رکھا گیا ہے ۔ یوں بھی ا س عبوری دور کے لئے ایک ایسا گورنر چاہئے جن پر فوج بھی اعتماد کرے اور جن کو خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بھی اپنا سمجھے ۔ موجودہ گورنر بیمار اور ضعیف ہیں ۔ وہ میاں نوازشریف کے جیالے اور تابعدار ضرور ہیں لیکن ہر الیکشن میں حصہ لینے کے باوجود کبھی اپنے حلقے کا انتخاب نہیں جیت سکے ۔ اے این پی کی حکومت میں ایک ایس ایم ایس نے اودھم مچار رکھا تھا لیکن موجودہ گورنر صاحب کو تین ایس ایم ایس نے گھیر رکھا ہے ۔ ان حالات میں یہ توقع رکھنا کہ اقبال جھگڑا فاٹا اور خیبرپختونخوا کے انضمام کا یہ مشکل کام کرسکیں گے، اپنے آپ کو اور قوم کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
اسی تناظر میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ ہم پاکستانیوں کو دشمن کی ضرورت نہیں۔ ہم خود اپنے لئے کافی ہیں کیونکہ دشمن کے کام ہم خود آسان کررہے ہیں۔

.
تازہ ترین