• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صاحبان عقل و دانش، کان کھول کر یہ سن لیں،کہ پی ایس ایل فائنل لاہور میں ہونے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہو گا کہ جس کی تاریخ میں نظیر نہ ملتی ہو، کوئی انہونی جغرافیائی تبدیلی نہیں آئے گی، اس دنیا کے بین الاقوامی حالات میں کوئی تنوع پیدا نہیںہوگا۔ اس فائنل کے لاہور میں منعقد ہونے سے نہ توڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمانوں کے بارے میں خیالات بدلیں گے نہ امریکہ شمالی کوریا سے پابندیاں اٹھائے گا نہ عراق اور ایران میں صلح ہوگی نہ ہی ایتھوپیا میں قحط ختم ہوگا، نہ برطانیہ دوبارہ یورپی یونین کا حصہ بنے گا اور نہ ہی بھارت کی انتہا پسندی ختم ہو گی۔اس ایک فائنل کے لاہور میںہونے سے یہ تک نہیں ہوگا کہ بین الاقوامی کرکٹ پاکستان میںواپس آجائے گی۔ نہ اس سے پاکستانی پاسپورٹ کی اچانک حرمت بڑھے گی، نہ غیر ملکی کھلاڑی ہر روز پاکستان کا دورہ کریں گے، نہ ہی یہ فائنل ضمانت ہے کہ ہمارے کھیل کے میدان پھر سے آباد ہو جائیں گے نہ اس ایک گیم سے ملک میں کھیلوں کی نشو و نما میں کوئی فروغ ملے گا، نہ اس ایک فائنل سے لوگ سری لنکن ٹیم کے سانحے کو بھولیں گے اور نہ ہی اگلی پی ایس ایل کے سارے میچ پاکستان میں ہوںگے۔پی ایس ایل کے ایک فائنل کے لاہور میں ہونے سے کچھ ایسا نہیں ہوگا جو آج تک چشم فلک نے نہ دیکھا ہو۔
ہاں البتہ ایک چھوٹی سی تبدیلی ضرور آئے گی۔ لوگوں کو کچھ دیر کی خوشی نصیب ہو گی۔کچھ حوصلہ ملے گا۔ کچھ زندگی کا احساس ہو گا۔
لیکن کچھ لوگوں کو یہ خوشی قبول نہیں ہے۔ یہ حوصلہ منظور نہیں ہے۔زندگی کا یہ توانا احساس راس نہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے گزشہ چار سال میں ہمیں مسلسل نفرت کا سبق دیا ہے۔ ہر ادارے کی توڑ پھوڑ کا حکم دیا ہے۔ہر شخص کو ملزم ٹھہرایا ہے، ہر فرد کو مجرم بتا یا ہے۔ انہوں نے چار سال میں بڑی کوشش سے ہمیںیہ سبق پڑھایا ہے کہ اس ملک میں کوئی قابل اعتبار نہیں، کوئی ایماندار نہیں، سب ڈاکو ، چور اور لٹیرے ہیں۔اب سب کچھ لٹ چکا ہے۔ دہشت گردی سے اب نجات ممکن نہیں۔ظلم سے اب فرار ممکن نہیں۔ اب کوئی فیصلہ حق پر نہیں ہو سکتا، اب کوئی فرد سچ نہیں بول سکتا ، اب نفرت کا راج ہے، اندھیر نگری ہے، ظلمت ہے، اور قسمت کی کالک ہم پر ہمیشہ کے لئے مسلط ہے۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم پر ایسے منفی لوگ حکمران نہیں، ایسے احمقوں کو ابھی ہم نے لائق اختیار نہیں سمجھا ،ورنہ کچھ بعید نہیں کہ یہ خوف کے ستائے ،حکومتوں کے فوری خواہشمند سیاستدان، جانے اس پورے معاشرے کو کتنابزدل بنا دیتے۔ ان کے اختیار میں اگر ہوتا تو یہ لوگوں کو اتنا ڈراتے ، اتنا ڈراتے کہ ہر سڑک، گلی کوچے پرآ ٓہنی قفل لگے ہوتے۔دفتروں اور گھروں میں لوگ خوف سے مقید رہتے، ہر گھر کو موٹے وزنی تالوں سے مقفل کر دیا جاتا، کھڑکیوں پر لوہے کی پتریاں چڑھا دی جاتیں، لوگوں کے چہروں پر لوہے کے خود چڑھے رہتے اور اس پر بھی یہ لوگ یہی کہتے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے ، کرفیو لگ سکتا ہے، پولیس کی ہزار ہانفری آ سکتی ہے، یہ ملک عراق بن سکتا ہے۔یہ خطہ تہہ و تیغ ہو سکتا ہے۔یہ دنیاکبھی بھی تباہ ہو سکتی ہے۔
ان نفرت پسند ، شدت پسند سیاستدانوں سے تخمینے میں بس یہ غلطی ہوگئی کہ انہیں اس قوم کے مزاج کا درست اندازہ نہیں ہوا۔ انہوں نے چار سال میں بھرپور کوشش کی کہ ہمیں ہر چیز سے نفرت ہوجائے، نظام ہو یا ادارے، افراد ہویا جماعتیں، فوج ہو عدلیہ ہر چیز سے ہمارا عتبار اٹھ جائے، ہر چیز سے ہم متنفر ہو جائیں، ہر واقعہ ہمارے لئے خوف کا سبب بنے ، ہر فرد ہمارے لئے دہشت کی علامت ہو۔ مگر خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ یہ قوم ان آتش بیانوں کے اندازوں سے مختلف نکلی۔ یہ قوم بہت حوصلے والی، ہمت اور جگرا دکھانے والی ہے۔ مسلسل خوف زدہ رہنا انکی سرشت میں نہیں ہے۔ یہ اعتبار کرنے والے پر اعتماد لوگ ہیں۔ اور پھر شہر لاہور ۔ جو داتا نگری کہلاتا ہو، جو میلے ٹھیلے کا شوقین ہو، جو کھانے پینے کا رسیا ہو، مذاق ٹھٹھہ جن کا تکیہ ہو، جو منیر نیازی کا شہر ہو ، جو ناصر کاظمی کی دنیا ہو۔ یہ لوگ کسی سے ڈر جائیں ممکن ہی نہیں۔
یاد کریںپینسٹھ کی جنگ، جب انڈیا کے حملے کی خبر آئی تو اس شہر کے لوگ دشمن کو سبق سکھانے کے لئے ڈنڈے اٹھا کر سر حد کی جانب بھاگ پڑے، یاد کریں اسی دھرتی کے سپوت تھے جو جسموں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔یاد کریں اسی شہر میں واہگہ کے مقام پر ایک سانحہ ہوا سینکڑوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے اور اس سے اگلے دن واہگہ کے اسی مقام پر پہلے سے زیادہ رش تھا، پہلے سے زیادہ قوت سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے، پہلے سے زیادہ جوش سے لوگ سبز پرچم کو سلام کر رہے تھے۔اور کچھ نہیں تو گلشن اقبال چلے جائیں کتنا اندوہناک سانحہ ہواتھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اب اس شہر کی خوشیاں واپس آئیں گی، اس بستی کو مسکراہٹیں نصیب ہوں گی۔ چلے جائیں آج گلشن اقبال وہی رونق ہے، وہی زندگی ہے۔ اور تو اور سری لنکن ٹیم کا ڈرائیور مہر خلیل جس کے سامنے وہ سب خون ریزی ہوئی، وہ بھی فائنل کے ٹکٹ ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔جوشیلے سیاستدان صاحب ،یہ قوم مختلف قوم ہے۔ اس میں سانحات کے بعد بھی جینے کا حوصلہ ہے۔امید ہے ، ترنگ ہے۔
برادر عزیز یاسر پیرزادہ نے اسی ہفتے اپنے ایک کالم جنگل کی آخری سطروں میں اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ یہ قوم اب دو حصوں میں تقسیم کی جارہی ہے۔ ایک حصہ جمہوریت پسند ہے اور دوسرا آمریت پسند ہے۔ انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بس یہ عرض کرنا ہے کہ یہ تقسیم اگر حکومت اور اپوزیشن کی ہوتی تو قابل قبول تھی، ایک صوبے کی دوسرے صوبے سے ہوتی تو گواراہوتی ، اک زبان بولنے والوں کی دوسری زبان بولنے والوں کے درمیان ہوتی تو بات سمجھ آتی تھی۔ بدقسمتی سے یہ تقسیم روشنی اور اندھیرے کی تقسیم ہے۔یہ انصاف اور ظلم کی تقسیم ہے، یہ درست اور غلط کی تقسیم ہے۔یہ تقسیم میڈیا کے چند نا عاقبت اندیشوں کے توسط سے ہمارے اندر پیدا کی جا رہی ہے۔سرعام روشنی کو برا بھلا کہا جا رہا ہے، اندھیرے کی ترغیب دلائی جا رہی ہے، سچ کو جھوٹ بتایا جا رہا ہے اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔جمہوریت کی نفی کوسب سے بڑا اثبات بتایا جا رہاہے اور غیر جمہوری عوامل کی عوامی پذیرائی کی جا رہی ہے۔
المیہ یہ نہیں ہے کہ پی ایس ایل فائنل کے بہانے جو ننھی سی خوشی ہم کو نصیب ہو رہی ہے اس کی مناہی ہو رہی ہے۔ المیہ یہ بھی نہیں کہ خوشیوں کی طرف ہمارے لپکتے ہاتھوں کو روکا جا رہا ہے، المیہ یہ بھی نہیں ہے کہ اگر ہم زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں تو ہمیں گہری اندھیری کھائی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ المیہ تو یہ کہ یہ ماتم زدگان اس خوشی کے موقع پر انتظار کریں گے کہ کوئی سانحہ ہو جائے، کوئی حادثہ ہو جائے تو یہ اپنے اندیشوں کو اپنی کامیابی بتائیں، اپنے خوف کے سچ ہونے پر خوش ہو جائیں اور پھر یہ ہمارے سامنے ہمارے سوگ کا جشن منائیں۔

.
تازہ ترین