• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پر مخلوط جنگ ( Hybrid War ) مسلط کر دی گئی ہے اور یہ جنگ امریکہ اور بھارت مل کر پاکستان کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔ پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات اسی ’’ مخلوط جنگ ‘‘ کا حصہ ہیں ۔ یہ بات روس کے معروف صحافی اور تجزیہ کار اینڈریو کوریکو ( Andrew Korybko ) نے اپنے ایک تحقیقاتی اور عالمانہ مضمون میں کہی ہے ، جو دنیا کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوا ہے ۔ اینڈ ریو کوریکو کے ماہرانہ تجزیوں کو دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے اور مغرب کے بڑے بڑے تھنک ٹینکس ان تجزیوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے مضمون میں یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان کو اس مخلوط جنگ سے کس طرح نمٹنا چاہئے۔
مخلوط جنگ یا ( Hybrid War) ایک ایسی اصطلاح ہے ، جو روایتی اور غیر روایتی جنگوں کے ہر حربے کو استعمال کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔ مخلوط جنگ میں باقاعدہ افواج ، خصوصی افواج ، دہشت گرد گروہوں یا غیر روایتی جنگجو دستوں ، مقامی انتشار ، پروپیگنڈہ ، سفارت کاری ، سائبر حملوں اور اقتصادی جنگ سمیت تمام حربے ایک ساتھ اختیار کئے جاتے ہیں ۔ اینڈریو کوریکو کاکہنا یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت پاکستان کے خلاف مخلوط جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں خصوصاً ’’ داعش ‘‘ کے مختلف گروہوں کو استعمال کر رہے ہیں ۔ پاکستان بوجوہ اس جنگ میں دفاعی پوزیشن میں ہے ۔ اینڈ ریوکوریکو کا دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو اس مخلوط جنگ کے ذریعے غیر مستحکم کرنے کا بنیادی سبب پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) ہے ۔
سی پیک کا منصوبہ کیا ہے ؟ اینڈریو اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گزشتہ دو سالوں میں جنوبی ایشیا کی تزویراتی ( اسٹرٹیجک ) اہمیت کا ازسر نو تعین ہوا ہے ۔ سی پیک بنیادی طور پر ’’ ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ یعنی نئی شاہراہ ریشم کے لئے چین کا گلوبل وژن ہے ، جو ’’ ملٹی پولر ورلڈ آرڈر ‘‘ یعنی کثیر قطبی عالمی ضابطے کو جنم دے رہا ہے ۔ ’’ پان یوریشیا یکجہتی ‘‘ کے لئے پاکستان ’’ Zipper ‘ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور تہذیبوں کا سنگم بن گیا ہے ۔ امریکہ اور اس کے یک قطبی ( یونی پولر ) اتحادی بشمول بھارت دنیا کے مستقبل کے بارے میں اپنا الگ تصور رکھتے ہیں اور وہ سی پیک کے سخت مخالف ہیں ۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ سی پیک سے ان کی دنیا پر بالادستی کی خواہشات پوری نہیں ہو سکتیں ۔ سی پیک کا حصہ بننے اور پورے یوریشیا کو اس کا فائدہ پہنچانے کی بجائے واشنگٹن اور نئی دہلی نے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان کے وہ مفادات اور عزائم پورے ہو سکیں ، جن کا انہوں نے ازخود تعین کر رکھا ہے ۔ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے دونوں ممالک افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو استعمال کر رہے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں اور ساجھے داروں کے لئے سی پیک کی کشش کم ہو جائے گی ۔ حضرت لعل شہباز ؒ کے مزار پر حملے اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی ان کارروائیوں کو اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ وہ انفارمیشن وار فیئر پروپیگنڈہ بھی کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کے ایک غیر مستحکم ملک ہونے کا تاثر مضبوط کیا جاسکے۔ دوسری طرف بھارت نے پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر بھی فوجی دباؤ بڑھا دیا ہے ۔
کیا واشنگٹن اور نئی دہلی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکیں گے؟ اینڈریو کوریکو اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اب کوئی دہشت گرد یا کوئی طاقت سی پیک کی تکمیل کو نہیں روک سکتی لیکن امریکہ اور بھارت کا ہدف یہ ہے کہ سی پیک کے روٹس پر غیر روایتی جنگ کو جاری رکھا جائے ۔ پاکستان کے بارے میں ہر سطح پر منفی تاثر پیدا کیا جائے تاکہ دنیا یہاں سرمایہ کاری کرنے سے گھبرائے۔ یہ صورت حال طویل عرصے تک برقرار رہنے سے امریکہ اور بھارت کو یہ امید ہے کہ سی پیک سے وابستہ اقتصادی توقعات پوری نہیں ہوں گی اور چین بالآخر یہ سوچنے لگے گا کہ اس نے اپنے وسائل کا ضیاع کیا ہے ۔ اس طرح پاکستان اور چین کی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کمزور ہوگی ۔ اینڈ ریو کوریکو اپنے تجزیے میں یہ بات وثوق سے کہتے ہیں کہ امریکہ اور بھارت اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ امریکہ اور بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کر رہی ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر اس امر کا ثبوت ہے ۔
ایسی صورت حال میں پاکستان کو کیا کرنا چاہئے ؟ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ دہشت گردوں کے کئی سلیپر سیل پاکستان میں داخل کردیئے گئے ہیں ۔ یہ خطرہ موجود ہے کہ پاکستان میں آئندہ بھی دہشت گردی کی کارروائیاں ہوسکتی ہیں۔ اس خطرے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دیگر چیلنجوں کا بھی سامنا ہے ۔ بھارت پاکستان کے خلاف اپنی روایتی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ذریعے پاکستان کو مزید نقصان پہنچاسکتا ہے ۔ پاکستان میں فوج کی کمان تبدیل ہو گئی ہے ۔ روس اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں ۔ روس کو افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کے بارے میں سخت پالیسی اختیار کر رہے ہیں ۔ پاکستان کو ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے ۔ اینڈریو کوریکو نے اس حوالے سے داخلی سفارتی اور فوجی محاذوں پر پاکستان کو بعض اقدامات کرنے کی تجاویز دی ہیں ۔ ان تجاویز پر پاکستان کے پالیسی سازوں ، قومی سیاسی قیادت اور عسکری اداروں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ۔ اینڈریو کے دلائل بہت مضبوط ہیں اور ان کے اس تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حرکیات سے اچھی طرح واقف ہیں ۔
ان کے خیال میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کراکر بھارت پاکستان سے انتقام لے رہا ہے ۔ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ چین اور روس کو یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مل کر اپنے ملٹی پولر اہداف حاصل نہیں کرسکتے ۔ پاکستان بہت سنجیدہ صورت حال سے دوچار ہے ۔ اس مخلوط جنگ سے نمٹنے کے لئے اینڈریو کوریکو کے بقول پاکستان کو دفاعی پوزیشن سے نکلنا ہو گا ۔ فوری طور پر افغانستان کے ہمسایہ ممالک خصوصاً ایران ، وسطی ایشیائی ریاستوں ، چین اور روس کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کا نظام قائم کرنا ہو گا تاکہ دہشت گردوں سے نمٹا جاسکے۔ پاکستان کو افغانستان سے ہونے والی مداخلت پر اقوام متحدہ سے رجوع کرنا ہو گا ۔ سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہو گا ۔ داعش کو روکنے کے لئے طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بنانا چاہئیں ۔ اینڈریو کا یہ بھی کہنا ہے کہ خطے اور دنیا کے حالات پاکستان کی حکمت عملی کی کامیابی کے لئے سازگار ہیں ۔ اس کے لئے انہوں نے جزئیات پر بھی بات کی ہے ۔ ان کے عالمانہ تجزیے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔



.
تازہ ترین