• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
8سال قبل لاہور کے جدید اور پُر رونق علاقے لبرٹی چوک میں جب بس میں سوار سری لنکن کرکٹ ٹیم کے قذافی اسٹیڈیم جاتے ہوئے اوپن فائرنگ کر کے جو حملہ کیا گیا تھا، وہ فقط دہشت گردی کا حملہ ہی نہیں تھا، بلکہ پاکستان کو بطور کرکٹ نیشن، دنیائے کرکٹ سے خارج کرنے اور دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ ’’پاکستان ایسا غیر محفوظ ملک ہے جہاں غیر ملکی مہمان کرکٹ کھلاڑی بھی غیر محفوظ ہیں‘‘۔ صاحب الرائے اہالیان لاہور کو شک نہیں اس امر کا یقین ہے کہ یہ اس منظم اور گہری سازش پر عملدرآمد تھا جس کے تحت پاکستان کے ازلی دشمن نے دنیا پر یہ ثابت کرنا اور اسے یقین دلانا تھا کہ ’’پاکستانی قومی کرکٹ کا مرکز، لاہور پاکستان میں ہونے والی مسلسل دہشت گردی میں اس قابل نہیں رہا کہ یہاں اب غیر ملکی کرکٹ ٹیمیں آئیں اور میچ کھیلیں‘‘۔ واضح رہے کہ اس کے پس منظر میں بھارتی ٹیم کا وہ دورہ لاہور (2003-04)بھی تھا جس میں قذافی اسٹیڈیم میں ہونے والے پاک بھارت کرکٹ میچ نے پوری عالمی برادری خصوصاً بھارتی عوام اور کرکٹرز کو یہ پیغام دیا تھا کہ ان کے حکمرانوں اور میڈیا کا یہ پروپیگنڈہ سراسر بے بنیاد ہے کہ ’’پاکستان بھارت کے خلاف کرکٹ بھی جنگجوانہ انداز میں کھیل کر دونوں ملکوں کے درمیان ہائپ پیدا کرتا ہے اور کرکٹ سے دونوں ملکوں میں امن و دوستی کی فضا پیدا ہونے کی بجائے دشمنی کے احساسات بڑھ رہے ہیں‘‘ اور تو اور عالمی برادری خصوصاً دنیائے کرکٹ میں بھارتی کرکٹ لائیبسٹ، میڈیا اور انڈین کرکٹ بورڈ کی ہاں میں ہاں ملانے والے امن کے معدودِے چند پیامبر پاکستان میں بھی پائے جاتے تھے، حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ بھارت جو ہر حربے سے کرکٹ کے گورے ممالک سے باہر کی دنیائے کرکٹ کا بے تاج بادشاہ بننے کے جنون میں مبتلا تھا، اس کے برداشت سے باہر تھا کہ پاکستان اسے بھارت میں ہی شکست دے اور پاکستان میں بھی اس پر جب اس نے کرکٹ کی بین الاقوامی روایت اور قواعد کو خاک میں ملاتے ہوئے یہ صورت پیدا کی کہ پاک بھارت کرکٹ سیریز پاکستان اور بھارت سے باہر صرف خلیجی ممالک میں ہی ہو تو وہاں کی بھی تقریباً ہر سیریز میں پاکستان سے پسپائی کے بعد نئی دہلی کے لئے شارجہ اسٹیڈیم‘‘ بھی منحوس ہو گیا تو اس نے یہاں بھی، حتیٰ کہ اپنی سرزمین پر بھی پاکستان سے کرکٹ کھیلنے سے ممکنہ حد تک گریز کا آغاز کیا۔ جہاں تک پاکستان کے خلاف کرکٹ میچوں سے پہلے اور دوران جنگی نوعیت کا جنون پیدا کرنے کے بھارتی پروپیگنڈہ کا تعلق تھا، حقائق اس کے بالکل الٹ تھے، اس کا ذمہ دار اصل میں خود بھارت کا کرکٹ بورڈ اور میڈیا رہے، تحقیق ہو تو یہ ایک ثابت شدہ کیس ہے۔ پاکستان نے تو ’’کرکٹ برائے امن‘‘ کے حوالے سے یہ تاریخ رقم کی کہ ’’جب پاکستان، افغانستان میں سوویت افواج کے انخلاء کی افغان مزاحمت کے دوران پوری ’’فری ورلڈ‘‘ اسلامی دنیا اور حامی ممالک کی مشترکہ کوششوں کا بیس کیمپ بنا ہوا تھا، تو 1987میں راجیو گاندھی حکومت نے پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر حملہ آور ہونے کی تیاریوں کا دبائو ڈالنا شروع کیا تو پاکستانی فوجی حکمران ضیاء الحق نے کمال سفارتی مہارت و ذہانت سے راجستھان میں ہونے والا پاک بھارت کرکٹ میچ خود دیکھنے کی خواہش پر بھارت کا مختصر دورہ کر کے واپسی پرواز سے پہلے میزبان کائونٹر پارٹنر آنجہانی راجیو گاندھی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں مسکراتے ہوئے یہ خطرناک لیکن میٹھا انتباہ کیا کہ ’’یاد رکھنا کہ جو خطرناک کھلونے آپ کے پاس ہیں، وہ ہمارے پاس بھی ہیں‘‘۔ ضیاء الحق کی اس بڑی سفارتی دھمکی جو کرکٹ میچ کے مہمان خصوصی کے کور میں انہوں نے دی، سے پاک بھارت جنگ کے بڑھتے خطرات ٹل گئے جس کے واضح اشارے بھارت کی جانب سے ’’پاکستان پر تحریک خالصتان کی معاونت‘‘ کے الزام کی آڑ میں دیئے جا رہے تھے۔
مشرف دور میں لاہور میں ہونے والا تاریخی پاک بھارت کرکٹ میچ اس اعتبار سے منفرد تھا کہ اس میں پاکستانی میڈیا، عوام، کرکٹ بورڈ اور حکومت نے کمال مثبت رویہ اختیار کر کے اسے امن کا بڑا ذریعہ بنایا۔ پاکستان نے اس میچ کے لئے حیرت انگیز حد تک بھارتیوں کو 5ہزار ویزے جاری کرنے سے اتفاق کیا۔ اتنے ہی بھارتی شہری میچ دیکھنے واہگہ بارڈر کے ذریعے لاہور آئے تو وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ پاکستانی سفارتخانے نے بھارتی کرکٹ شائقین کے لئے واہگہ پر میزیں لگا کر ویزہ آفس کھولا ہوا ہے جو دھڑا دھڑ بھارتیوں کو ویزے جاری کر کے لاہور داخل کر رہا تھا۔ ادھر لاہور کی مقامی انتظامیہ اور شہریوں نے بھارتیوں کا جو پُر جوش خیر مقدم کیا اور جتنی دوستی انہیں بانٹی، اس پر ان بھارتیوں کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں جو بچپن سے اپنے بزرگوں اور میڈیا سے مسلسل یہ سنتے آئے تھے کہ پاکستان ان کا دشمن نمبر ایک اور لاہور جنگی جنون میں مبتلا شہر ہے جو بھارتیوں کو ذہناً برداشت ہی نہیں کرتا۔ امر واقع یہ تھا کہ لاہوریوں نے میچ دیکھنے سے زیادہ دلچسپی بھارتی صحافیوں اور شہریوں کی سیوا میں لی تھی۔ یوں انہوں نے پاک بھارت کرکٹ میچوں کے دو طرفہ روایتی ’’جنگی جنون‘‘ کو ایک ہی دن میں کافورکر دیا۔
آج جبکہ پورا پاکستان کامل اتفاق سے اپنے ’’کرکٹ جنون برائے امن‘‘ کو ایک بار پھر ثابت کرنے پر تیار ہے، آج لاہور میں ہونے والا ’’پاکستان سپر لیگ کا فائنل دہشت گردی کے حملے کا بڑا خطرہ مول لے کر منعقد کیا جا رہا ہے، لیکن ہمت و حوصلے کے اسی درجے پر جس پر لاہوریوں نے (2003-04) کے پاک بھارت میچ میں بھارتیوں کو دوستی کے بے پناہ جذبات بانٹ کر جنوبی ایشیا میں امن کی فضا قائم کر کے مذاکرات کا دروازہ کھولا تھا نئی دہلی اور بھارت کے تمام اخبارات کے آرکائیوں میں محفوظ وہ خبریں، فیچر اور بھارتی صحافیوں کی وہ ڈائریاں پاکستان کے بطور قوم ’’کرکٹ برائے امن‘‘ پر یقین نہیں عملدرآمد کی گواہ ہیں جو کئی ہفتوں تک بھارت کے اخبارات میں شائع ہوتی رہی تھیں۔ آج صرف لاہور ی ہی نہیں پورا پاکستان یہ ثابت کرنے لاہور پہنچا ہے کہ وہ ’’کرکٹ برائے امن‘‘ کے پیس انسٹرومینٹ سے دہشت گردی پر ’’حملہ آور‘‘ ہو کر اس انسانیت دشمن حربے کو شکست سے دوچار کرے گا جس سے پورے مغربی اور جنوبی ایشیا کا امن تین عشروں سے برباد ہوتا چلا آ رہا ہے۔ بس بہت ہو گیا۔ دہشت گردی کے آخری نتائج کو سمجھنے کا آخری موقع آ گیا۔ دہشت گردی کو پراکسی وار سمجھنے والوں کے لئے یہ سمجھنے کا آخری موقع نہیں؟ کہ ہمیں ہمارے اپنے وطن میں امن و آشتی کی بحالی اور اسے برقرار رکھنے کے لئے کرکٹ بھی نہ کھیلنے دی گئی تو پھر کیا ہو گا؟



.
تازہ ترین