• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان دہشت گردی سے متاثر ہونے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔گزشتہ 10سالوں کے دوران دہشت گردی کے ناسور نے وطن عزیز کے در و دیوار کو ہلائے رکھا ۔ریکارڈ پر ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا جب ایک سے زائد خود کش دھماکے نہ ہوں۔ایسے بدنصیب دن بھی اس دھرتی نے دیکھے جب چند گھنٹوں کے فرق سے کئی کئی خود کش دھماکے ہوئے۔ہزاروں معصوم شہریوں نے اس جنگ کے دوران جان کی قربانی دی ۔لاکھوں افراد جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہوئے مگر کبھی بھی اس غیور قوم نے ہمت نہ ہاری۔ہر خود کش دھماکے کے بعد لہو میں نہائے ہوئے پاکستانیوں کا حوصلہ دیدنی رہا۔کچھ سابق حکمرانوں اور عسکری سربراہوں کی غلط پالیسیوں کا ہمیں نقصان بھی ہوامگر یہ کہنا غلط ہوگا کہ وطن عزیز کے حوالے سے کسی کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔سابق صدر پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کے نتائج 2005کے بعد سامنے آنا شروع ہوگئے مگر کچھ فوجی سربراہان نے قابل ذکر اقدامات بھی کئے۔من حیث القوم ہمارا المیہ ہے کہ ہم جانے والے کو برا اور ہر آنے والے کو اچھا کہتے ہیں ۔مگر حقائق یہ ہیں کہ جنرل(ر) مشرف کے بعد آنے والے ہر فوجی سربراہ نے اپنی ہمت اور استطاعت سے بڑھ کر دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔سابق آرمی چیف جنرل(ر) اشفاق پرویز کیانی کی ادارہ جاتی غلطیاں اپنی جگہ مگر دہشت گردی کو انجام تک پہنچانے میں پوری توانائیاںخرچ کی گئیں۔آپریشن راہ نجات،راہ راست سب کے سامنے ہے۔بہت سے مواقع پر مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کامیابیاں بھی نصیب ہوئیں مگر کہیںکہیں نتائج حاصل نہیں بھی ہوسکے۔ جنرل(ر) کیانی کے بعد جنرل(ر) راحیل شریف نے بھی پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔آپریشن ضرب عضب کی ایسی دھاک بٹھائی کہ سرحد پار بھی کامیابیوں کا اعتراف کیا گیا۔بہت سے اہداف مکمل بھی ہوئے لیکن یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ آپریشن کے سو فیصد نتائج حاصل کرلئے گئے۔ابھی اس جنگ کو جیتنے کے لئے طویل سفر طے کرنا ہے۔مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں تمام آرمی چیف کے ادوار میں سیاسی قیادت کو بھی کریڈٹ دینا ہوگا ،جو اپنے اداروں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی نظر آئی۔جنرل (ر) کیانی کے دور میں جتنا کریڈٹ مسلح افواج کو جاتا ہے،اتنا ہی پی پی پی کی سیاسی قیادت کو بھی دینا ہوگا۔جس نے ہر فیصلے کو فرنٹ سے لیڈ کیا اور کامیابی اور ناکامی دونوں کو گلے لگانے کا حوصلہ پیدا کیا۔
سابق آرمی چیف جنر ل(ر) راحیل شریف کے آپریشن ضرب عضب میں بھی سب سے بڑا کریڈٹ سیاسی قیادت کو جاتاہے۔جس نے اس فیصلے کو کامیاب بنانے میں پوری توانیاں خرچ کیں۔جس وقت یہ فیصلہ لیا گیا،بہت غیر مقبول اور حساس فیصلہ تھا،مگروزیراعظم نوازشریف نے ہمیشہ کی طرح قومی لیڈر ہونے کا ثبوت دیا اور اس فیصلے کے تمام نتائج کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانے کے عزم کا اظہار کیا۔
آج وطن عزیز میں عسکری قیادت بدل چکی ہے۔سیاسی ارباب و اختیار وہی پرانے ہیں۔دھیمے مزاج اور رکھ رکھاؤ کے حوا لے سے مقبول شخص پاک فوج کے سربراہ ہیں۔ اخباری خبریں اور سوشل میڈیا مہم ان کی ترجیحات نہیں ہیں۔اب تک کی صورتحال نے ثابت کردیا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی ترجیحات صرف اور صرف اپنا کام ہیں۔منتخب وزیراعظم سے مثالی ورکنگ ریلیشن اور اداروں کے تقدس کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کئی بیمار ذہنوں نے اداروں کو ایکدوسرے سے متنفر کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر عسکری قیادت کو داد دینی چاہئے۔کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر کا بھی تذکرہ کیا کہ عسکری قیادت کی جانب سے منتخب وزیراعظم کو غیر معمولی عزت کیوں دی جارہی ہے۔ہمیشہ کی طرح موثر مہم جوئی کی کوشش کی گئی مگر متعلقہ کوارٹرز کی طرف سے کوئی داد نہ ملنے پر خواہشات دل میں ہی دم توڑ گئیں۔سمجھ نہیں آتی کہ جس شخص کو اللہ نے عزت دی ہو ،آپ اور میں کون ہوتے ہیں اس کی عزت نہ کریں۔
بہرحال بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔جنرل قمر باجوہ نے جس انداز میں آپریشن رد الفساد کی بنیاد رکھی ،ماضی میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔خوشی ہوتی ہے کہ ہماری آئی ایس پی آر آپریشن کی تفصیلات سے آگاہ کررہی ہوتی ہے۔ مگر ماضی کے برعکس اہداف اور ادارے کی کامیابیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔آرمی چیف جنرل باجوہ تعریف کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایسے تمام تاثر کو مکمل زائل کیا ،جس سے لگتا تھا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد الگ الگ فیصلے کرتے ہیں۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جارحانہ بیانات اور موثر میڈیا مہم سے ادارے کو فائدہ ہوتا ہے۔حالانکہ ہر گز ایسا نہیں ہے۔کارکردگی اور اپنے کامیاب اہداف سے ادارے کی عزت قوم کے سامنے بڑھتی ہے۔آرمی چیف کی ملک میں جو عزت اور عہدے کی وقعت ہے۔وہ شاید کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ بڑا ظرف ہوتا ہے کہ بڑے عہدے پر بیٹھ کر بڑے ویژن سے سوچنا اور بلاشبہ جنرل صاحب ایسا ہی کررہے ہیں۔پنجاب جیسے بڑے صوبے میں پہلے بھی اداروں کی کاروائیاں ہوتی تھیں اور آج بھی ہورہی ہیں۔مگر رینجرز حکام کی پریس ریلیز دیکھ کر خوشی ہوتی ہے جب لکھا ہوتا ہے کہ "پولیس اور رینجرز نے مل کر دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کیا"یہ سب اداروں کی مضبوطی کے ثمرات ہیں۔جنرل قمر جاوید باجوہ کسی کو نہیں بلکہ اپنے پاکستان کو مضبو ط کررہے ہیںاور اس سوچ کو ختم کررہے ہیں کہ ہم ہیں تو پاکستان ہیں۔بلکہ میں موجود آرمی چیف کی سوچ کو سیلوٹ کرتا ہوں جو برملا ہر جگہ کہتے ہیں کہ "یہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں "ویلڈن جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب۔یہ قوم آپ جیسے سپہ سالاروں پر فخر کرسکتی ہے اور جس حوصلے اور وژن سے آپ نے دہشت گردی کو ختم کر نے کا عزم کیا ہوا ہے۔ انشااللہ پاکستان جلد دہشت گردی کو مکمل شکست دینے میں کامیاب ہوجائیگا اور آپ جیسے ہی آرمی چیف کے بارے میںدیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے جن میں پولیس ،اے ٹی ایس،ایلیٹ اور سی ٹی ڈی ہیں۔یہ سب کہتے ہیں کہ آپ صرف فوج کے کمانڈر انچیف نہیں ہیں بلکہ آپ ہمارے بھی کمانڈر انچیف ہیں۔



.
تازہ ترین