• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک عام کہاوت ہے کہ جہاں قوم کے غم کا احساس حکمرانوں کے دل سے نکل جائے تو وہ قوم جلد یا بدیر برباد و تباہ ہوجاتی ہے۔ موجودہ حالات خاص طور پر پاکستان میں اس طرح ہوچکے ہیں کہ عوام کا غم، دُکھ درد، مشکلات و تکالیف کا غم حکمرانوںکو نہیں جبکہ قوم کے غم کا نعرہ لگانے والوں کو تو قطعی بھی نہیں ہے۔ کروڑوں لوگوں کی منتخب پارلیمنٹ کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کے لئے چند ہزار کا مجمع اکھٹاہوکر سڑکوں، میدانوں اور اداروں کے دفاتر کے سامنے راستے روک کر پارلیمنٹ کے فیصلوں کی کھلّم کھلّا مخالفت ہی نہیں بلکہ کئی مواقع پر تو قانون ہاتھ میں لینے سے بھی باز نہیں آتا۔ ہمارے سامنے عمران خان،الطاف حسین اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست موجود ہے۔
باہر سے، دوسرے شہروں و صوبوں سے لوگ آکر جینا محال کردیتے ہیں، (نوجوان ڈاکٹروں کی ہڑتال) سڑکوں اور اداروں کی بھیڑ راستہ روکے رکھتے ہیں اور انتظامیہ اپنے آپ کو جمہوری نظام کا علمبردار ہونے کے دعوے کی تصدیق میں مسلسل پسپائی اور شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے۔ کیا چند شرارتی لوگوں کو خوش کرنا جمہوریت ہے؟ عام و خاص سڑکوں کو بند کردینا کیا یہ قابل قبول ہے، بالکل نہیں، مگر حکومت و حکمراں خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور عوام کی بڑی تعداد کے دفتر یا کاروبار پر جانے اور واپس آنے میں گھنٹے ضائع ہوجاتے ہیں۔ ایمرجنسی سروس بند ہوجاتی ہے اور کئی بیمار جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ حکمرانوں کو حضرت عمرؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا نظام حکومت کبھی یاد نہیں آتا۔ کیا چند بہکے لوگوں کو خوش کرنا جمہوریت ہے اور کروڑوں لوگوں کی نمائندہ پارلیمنٹ کو عضو معطل بنانا ہی جمہوری طریقہ ہے؟ کیا عوام کی اکثریت کو اپنے کام آزادی سے کرنے کا کوئی بنیادی حق نہیں ہے ؟ کیا یہ غیرقانونی طور پر کارروائیاں کرنے والے افراد ،اداروں کی زندگی معطل کرنے میں حق بجانب ہیں ! اور پھر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسے خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کرنا جمہوریت کا معیار بن گیا ہے اور اس میں ہر پارٹی شریک ہوگئی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ دراصل عوام کی نمائندہ اور ان کے حقوق کی محافظ ہے (ڈکٹیٹروں اور آمروں کی پارلیمنٹ نہیں) جس کے صحیح اطلاق کا حق و فیصلہ عدلیہ پر ہوتا ہے ۔اگر مسلم لیگ (ن) غیر جمہوری اقدام سے بچتی رہی ہے تو پارلیمنٹ کو حکمراں پارٹی سے زیادہ بااثر ہونا چاہئے اور کیوں نا اس قسم کے غیرقانونی طور پر ہونے والے مظاہروں کو قانونی طور پر ردّ نہیں کرسکتی، انتشار پھیلانے والوں کو گرفتار کرکے قانونی سزا دینے میں کونسی جمہوریت دشمنی ہے، ملک میں نہ رہنے والوں کو ملک کے سیاسی معاملات میں داخل ہونے سے قانونی طور پر روکنے میں کیا قباحت ہے لیکن سیاسی خوف اور مصلحت دوسری پارٹیوں کی ناراضی کے خوف سے حکمراں پارٹی حکومت اور پارلیمنٹ کوئی مؤثر قدم کیوں نہیں اُٹھاتی ۔ آئین بنتے وقت یہ مشکلات کسی کے سامنے نہیں تھیں کہ کوئی اجنبی طبقہ، یا غیر جمہوری لوگ پانچ دس ہزار افراد کے ساتھ کسی بھی ادارے یا حکومت کا کام روک سکتے ہیں اور حکومت اپنے کارکنوں کو برابر پسپائی کا درس دیتی رہے گی۔ تحریک انصاف پاکستان جیسی دوسری پارٹیاں سوائے مخالفت برائے مخالفت مظاہرے، شہر کی سڑکیں، دفاتر بند کروانے کے اور کوئی کام نہیں کرنے دیں گی۔ انھیں اگر قانونی طور پر اعتراض ہے تو عدالتیں موجود ہیں۔ آخر عوام کے حقوق پر کب تک ایسے ڈاکہ ڈالا جائیگا اور انتظامیہ اور منتخب پارلیمنٹ بے بس ہو کر تماشہ دیکھتی رہے گی۔ جلسے جلوس، ہڑتالیں، مظاہرے اور اختلافی نعرے اب ملک میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ انھیں جمہوریت کا حُسن کہنے والوں کی عقل پر رونا آتا ہے۔ سیاسی اختلافات پر کوئی جلوس نکلتا ہے تو کسی پارٹی کا رُکن کسی جرم میں پکڑا جائے تو دکانیں اور بازار بند ہونے لگتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے احتجاجاً ہڑتال کی ہے لیکن حقیقت بالکل برعکس ہوتی ہے۔ پارٹیوں کے کارکن ہوائی فائر کرکے لوگوں کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ لندن میں اگر کوئی لیڈر جرم میں پکڑا جاتا ہے یا مارا جاتا ہے تو کراچی کے عوام کا کیا قصور ہے کہ سزا ان کو دی جائے اور دیہاڑی لگانے والے مزدوروں کو اور چھوٹے کاروباری اور گھروں کو واپس جانے والے عوام کو گھنٹوں سزا دی جائے۔ اس قسم کی کال دینے والوں کو اگر ایک بار کڑی سزا دے دی جائے تو ہمیشہ کے لئے اس مسئلے سے نجات مل سکتی ہے۔
رینجرز نے ایک ہڑتال توڑی تھی اس کے بعد سے اب تک کسی کو ہڑتال کی جرأت نہیں ہوئی۔ پھر ہمارے ہاں جلسے جلوسوں کی روایت بہت زور پکڑ گئی ہے۔انتظامیہ فخریہ طور پر اپنے اقدامات کا اعلان کرتی ہے اور کسی فرد یا طبقے کی شرارت سب کئے کرائے پرپانی پھیر دیتی ہے۔ جان و مال کا ضیاع تو الگ ہے دوسرے ملکوں کی جمہوریت کی مثالیں تو ہمارے لیڈر بہت دیتے ہیں لیکن کیا کسی جمہوری ملک میں حکومت بے بس، مجبور اور مفلوج نظر آتی ہے۔ غیرملکی یہاں کے رہنے والوں کے سینہ پر مونگ دل سکتے ہیں۔ آخر سب کی مہربانی اس ملک اور اس کے عوام پر کیوں ہے۔ اگر کسی کو انتخابات یا اس کے نتائج پر شکایت ہے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے میں کیا قباحت ہے۔ تقریروں میں بُرا بھلا کہہ کر عوام کے راستوں، سڑکوں پر قبضہ جمانے، معیشت کو تباہ کرنے میں کونسی جمہوریت سرخرو ہوگی۔ اگر کوئی سمجھدار سیاست داں پارلیمنٹ میں اس کے لئے کوئی بل لائے تو وطن دوست لوگوں و ممبران کو چاہئے کہ اس کا ساتھ دیں اور اس خود ساختہ مصیبت کا علاج کرنا چاہئے۔ مظاہرے، ہڑتالیں، جلسے جلوس کے لئے ضروری قواعد بنانا ضروری ہیں۔ ورنہ کبھی نہ کبھی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور پھر حکمرانوں کے لئے مسائل پیدا ہونگے۔ حکومت کا فرض ہے کہ عوام کی جان و مال، عزّت و آرام کا خیال رکھے اور یہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔

.
تازہ ترین