• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اس وقت جس شدید بحران سے دوچار ہے، کسی بھی ذمہ دار حلقے کی جانب سے اس کا درست اندازہ نہیں لگایا جا رہا۔ یہ بحران پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے خلاف عالمی سازشوں اور سی پیک کو سبوتاژ کرنے کیلئے دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور ہمارے بعض داخلی عوامل اس بحران میں شدت پیدا کر رہے ہیں۔ آئندہ دو ہفتے پاکستان کیلئے بہت اہم ہیں۔ امید ہے کہ اس عرصے میں پاناما کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جائے گا۔ قطع نظر اس کے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہو گا۔ ملک کی سیاست پر اس کے گہرے اور دورس اثرات مرتب ہوں گے اور خاص طور پر حکمراں جماعت اس فیصلے کے اثرات سے نہیں بچ سکے گی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک میں سیاسی تناؤ اور عدم استحکام کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے یا کم از کم اس سے دنیا بھر میں پاکستان کے حوالے سے سیاسی عدم استحکام کا تاثر مضبوط ہو گا۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے، اس میں سیاسی تناؤ کی کوئی بھی صورت حال نقصان دہ ہو گی۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر سیاسی جماعتوں میں پیدا ہونے والے اختلافات سے بھی باہر کی دنیا کو اچھا پیغام نہیں گیا ہے۔ حکمران مسلم لیگ (ن) کی طرف سے طلب کردہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے اجلاس بے نتیجہ رہے۔ وفاقی حکومت کے مشاورتی عمل سے پاکستان پیپلز پارٹی الگ رہی اور اس نے حکومت کی طرف سے بلائی گئی کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے نیشنل ایکشن پلان اور فوجی عدالتوں کے معاملے پر غور کیلئے بلائی گئی کثیر جماعتی کانفرنس میں ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف اور MQM نے شرکت نہیں کی اور وہ بھی بلانتیجہ ہو گئی اور نئے اختلافات سامنے آئے۔ اگر پارلیمنٹ سے فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت میں کوئی آئینی ترمیم منظور ہو جاتی ہے اور اس کی کوئی مخالفت بھی نہ ہو تب بھی اتفاق رائے کا تاثر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔
دہشت گردی کے گزشتہ ماہ رونما ہونے والے بڑے واقعات کے بعد پاکستان میں بعض دیگر عوامل کی بھی نشاندہی ہوئی، جن کی بنیاد پر دنیا میں پاکستان کے بارے میں منفی تاثرمضبوط ہو ا۔ یہی بات بھارت، امریکہ اور دیگر طاقتیں چاہتی ہیں، جو سی پیک کی نہ صرف مخالف ہیں بلکہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی ان کی کوششیں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہیں۔ سانحہ سہون شریف کے بعد پاک فوج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف ایک نئے آپریشن ’’ رد الفساد ‘‘ کا اعلان ہوا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ اس آپریشن کا فیصلہ پرائم منسٹر ہاؤس میں ہوا تھا لیکن اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا یہ اعتراض درست ہے کہ اگر اس آپریشن کا اعلان وزیر اعظم کی منظوری سے ہوا ہے تو وزیر اعظم پر لازم تھا کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اس ضمن میں اعتماد میں لیتے۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن کو اعتماد میں نہ لے کر دنیا کو کوئی اچھا پیغام نہیں دیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان سپر لیگ ( پی سی ایل ) کرکٹ ٹورنامنٹ کا فائنل لاہور میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ فیصلہ کرنے والوں کی نیت یقینا اچھی ہو گی اور ان کی دانست میں عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہو گا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پی ایس ایل کے 27 میچز کا انعقاد متحدہ عرب امارات میں کیا گیا۔ اس سے دنیا میں یہ تاثر مضبوط ہوا کہ پاکستان میں امن وامان کی صور تحال بہتر نہیں ہے۔ پھر لاہور میں فائنل میچ کے انعقاد کیلئے سیکورٹی کے جو سخت انتظامات کئے گئے، ان سے پاکستان کا امیج بہتر بنانے میں مدد نہیں ملی۔ فائنل کھیلنے والی دونوں کرکٹ ٹیموں کے بعض غیر ملکی کھلاڑیوں نے بھی پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔ میرے خیال میں جس سے سب کو اختلاف کا حق ہے، پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کا جو مقصد تھا نہ صرف وہ مقصد حاصل نہیں ہوا بلکہ نتائج اس کے برعکس برآمد ہوئے۔ اس قدر سخت سیکورٹی میں میچ کرانا غیر سنجیدہ عمل ہے۔ اولیاء اور صوفیاء کرام کے مزارات زائرین کیلئے بند ہیں۔ انہیں کھولا نہیں جا سکا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ حکوت نے پاناما کیس سے توجہ ہٹانے کیلئے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرایا ہے۔
سانحہ سہون شریف اور آپریشن ’’ ردالفساد ‘‘ شروع ہونے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف محاذ جنگ پاک افغان سرحد پر منتقل ہو گیا ہے اور پاکستان کی مسلح افواج سرحد پار افغانستان کے علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کر رہی ہیں۔ یہ اسٹرٹیجک فیصلہ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی ہے اور افغانستان میں موجود ان دہشت گرد گروہوں کو بھارت، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے، جو ہرحال میں سی پیک کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ سی پیک کے خلاف سازشوں کی تھیوری پر دنیا بھر میں اتنی تحقیقات ہوئی ہیں کہ اب پاکستان کو ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے تھنک ٹینکس نے سی پیک کے عالمی سیاست پر اثرات کے حوالے سے کئی رپورٹس اور تجزیئے جاری کئےہیں۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ سی پیک سے ’’ ملٹی پولر ورلڈ آرڈر ‘‘ نافذ ہو جائے گا۔ امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادیوں کی ’’ یونی پولر ورلڈ ‘‘ والی بالا دستی ختم ہو جائے گی۔
انہوں نے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کیلئے پاکستان کو دہشت گردی میں الجھا رکھا ہے تاکہ دنیا میں پاکستان کے بارے میں یہ تاثر جائے کہ یہاں امن نہیں ہے اور سی پیک میں سرمایہ کاری نہ کی جائے اور اس کا حصہ نہ بنا جائے۔
مغرب کے ایک انتہائی معتبر تھنک ٹینک اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت سی پیک سے اس لئے خوف زدہ ہے کہ بحر ہند کے ساتھ ساتھ بحیرہ عرب میں چین کا ثرورسوخ بڑھ جائے گا اور مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہو گا جبکہ امریکہ اور اس کے یونی پولر ورلڈ کے اتحادی مستقبل کی دنیا کے بارے میں جو تصور رکھتے ہیں، وہ سی پیک کی جہ سے قابل عمل نہیں رہتا۔ اگر وہ سی پیک کو روکنے میں کامیاب نہ بھی ہوں تو بھی وہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہیں گے تاکہ وہ اپنے نئے ورلڈ آرڈر کو نافذ کر سکیں۔ ان کا فوکس اس بات پر ہو گا کہ پاکستان کے بارے میں منفی تاثر دیر تک قائم رہے۔
اس تناظر میں پاکستان کی قومی سیاسی قیادت اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اس بحران کا اندازہ کرنا چاہئے، جو اس وقت پاکستان کو درپیش ہے۔ ماضی قریب میں جو واقعات ہوئے، ان سے پاکستان کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں گیا اور مستقبل قریب میں جو سیاسی واقعات رونما ہو سکتے ہیں، وہ بھی عدم استحکام کے تاثر کو مضبوط کرسکتے ہیں۔اس وقت پاکستانی قوم اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ دنیا کو تبدیل کر دینے والے سی پیک کو کامیاب بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیاسی بحرانوں سے تدبر کے ساتھ نمٹ سکتے ہیں اور اس دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قومی اتفاق رائے کو برقرار رکھنے، بروقت فیصلہ کرنے اور عالمی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے اہل ہیں۔

.
تازہ ترین