• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر البیرونی، فارابی، سوری، رومی اور علامہ اقبال کی سرزمین کے لوگ جاگ گئے ہیں اور اُن کو احساس ہوگیا کہ وہ کتنی مہذب دُنیا کے باسی ہیں، وہ جنہوں نے دُنیا کا سفر کیا، فلسفہ پر فلسفے دئیے اور اسلام کے احیا کا کام کیا، انسانیت کی تبلیغ کی، جنہوں نے معاشرہ کی فلاح کیلئے کام کیا، جنہوں نے حساب دانی، کیمیا اور آسٹرلوجی میں بھی گرانقدر خدمات انجام دیں، جن کی تہذیب و تمدن انسانیت کی تعلیمات کی مبلغ رہی ہے، دُنیا کی سلامتی اور انسانوں کی اعلیٰ اقدار کے حامل لوگوں کے دس ممالک کے سربراہان مملکت یکم مارچ کو اقتصادی تعاون تنظیم کے تیرہویں اجلاس میں شریک ہوئے اور انہوں نے 2025ء وژن منظور کیا، اِن ممالک میں پاکستان کے علاوہ ایران، آذربائیجان، ترکی، افغانستان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان، کرغزستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ اِن ممالک نے اپنے اجلاس میں پاکستان کو اپنا چیئرمین منتخب کرلیا۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے صدر منتخب ہوتے ہی کہا کہ پاکستان میں سیاسی استحکام ہے اور اقتصادی تعاون تنظیم کو ایک طاقتور اقتصادی بلاک اور ترقی کی طرف گامزن کرنے کے لئے ایک موثر ادارہ بناکر مشترکہ وژن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پاکستان کے پاس بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، اس لئے بھی کہ اقتصادی تعاون تنظیم کا ایجنڈا ہمیشہ عوام پر مرتکز رہا ہے، اِس تنظیم کا ایک اہم جغرافیائی علاقہ ہے، یہ ایک وسیع خطہ ہے جو دُنیا کی آبادی کے چھٹےحصہ پر محیط ہے، تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ اِن ممالک کے درمیان اور دُنیا کی تجارت میں صرف اِس کو دو فیصدمل سکا ہے، میاں نواز شریف کا خیال تھا کہ ہم آپس کے رابطوں کو فروغ دے کر اِن اعدادوشمار میں اضافہ کرسکتے ہیں، اس طرح ہم اپنے لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کرسکتے ہیں، انہوں نے تمام ممالک کو یاد دلایا کہ اگر وہ سب مل کر ایشیا کی اقتصادی و تجارتی مرکز ہونے کے کردار کو زندہ کریں تو اس تنظیم کو ایک مثالی تنظیم بنا ڈالیں، اس کے لئے بھرپور طور پر بڑھنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں رابطوں کے فروغ کی ضرورت ہے جوکہ ہمارے تصور کی بنیاد ہے اور جس کے لئے چین پاکستان اقتصادی راہداری جیسا منصوبہ ہمارے پیش نظر ہے اور اِس منصوبہ سے بہتر کوئی اور منصوبہ نہیں ہوسکتا، اِس منصوبے کے ذریعے خطے کی خوشحالی کی نوید سنائی جاسکتی ہے اور اِس منصوبے کے ذریعے تمام ساتھی ممالک کو مشرق وسطیٰ اور افریقہ و یورپ تک رسائی دینے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہوا کہ منتخب حکومتوں کو مضبوط کیا جائے گا، دہشت گردی کے خلاف ترقی، امن و استحکام کیلئے مل کر لڑنے کا عزم کیا۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ خطے کی ترقی کیلئے علاقائی رابطوں کی ضرورت ہے، ایرانی صدر حسن روحانی کے خیال میں اکیسویں صدی ایشیا کی ہے، دہشتگردی کو مذہب سے نہ جوڑا جائے اور بنیادی ضرورتوں پر توجہ دینا ہوگی، سائنسی شعبوں میں تعاون بڑھانے کی فکر کرغستان کے وزیراعظم کی تھی اور امن کیلئے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت کا احساس ازبکستان کے نائب وزیراعظم نے دلایا جبکہ قربان کا کہنا تھا کہ ایکو ترقی کی راہیں متعین کررہی ہے، وزیراعظم قزاقستان کا فرمانا تھا کہ تنظیم کثیرالجہتی پلیٹ فارم بن چکی ہے۔ واضح رہے کہ دس ممالک کی یہ اقتصادی تعاون تنظیم کے دس ممالک میں سے ایران، ترکی، آذربائیجان، ترکمانستان، تاجکستان کے صدور شریک ہوئے، کرغستان، قازقستان کے وزرائے اعظم جبکہ ازبکستان کے نائب وزیراعظم اور افغانستان سے پاکستان میں افغان سفیر شریک ہوئے۔ یہ اجلاس پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ اس نے اپنے مغرب میں واقع زیادہ تر ممالک کو اپنا ہمنوا بنا لیا اور سب کو پہلے سے موجود ایکو کے ذریعے ایک لڑی میں پرو دیا۔ اِن سب ممالک کے فائدے میں یہ بات ہے کہ وہ بھی اقتصادی راہداری سے مستفیض ہوسکیں گے، جس کا خواب انہوں نے اور شاید ہم نے مل کر دیکھا تھا، وہ زمین بند ممالک ہیں، وہ سب چین پاکستان اقتصادی راہداری سے مستفیض ہوں گے۔ ایران زمین بند ملک نہیں ہے مگر وہ گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کی راہداری بن جائے گا۔ یہ سب کیلئے خوشی کا باعث ہے کہ ایکو کے ممالک یکجا ہوئے، اس طرح پاکستان نے بھارت کے پاکستان کو تنہا کرنے کے خواب کو چکناچور کردیا ہے، افغانستان کا افسوس رہے گا کہ وہ موقع کا فائدہ نہیں اٹھا سکا اور امریکہ کے زیراثر ہونے کے سبب افغان عوام کے مفاد کے برخلاف فیصلہ کرنے پر مجبور ہے، ورنہ اس کیلئے زریں موقع تھا، وہ اپنے دروازے کھولتا تو کچھ ممالک اس کے ملک سے راستے گوادر تک پہنچتے۔ جن ممالک کی سرحدیں افغانستان سے جڑی ہوئی ہیں اُن کو بھی فائدہ ہوتا اور ایران کو بھی مگر اُس کی اپنی مجبوریاں ہیں، امریکہ کے اثر سے نکل نہیں پا رہا ہے۔ اسکے علاوہ بھارت اسکو اپنے زیر نگیں کرنا چاہتا ہے بھارت کا ایک نادان قلم کار سبحاش کپلیا کہتا ہے کہ افغانستان کو پاکستان، چین اور روس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا، اب بھارت جیسا ملک افغانستان کا پشتبان بنے اس سے بڑھ کر افغانیوں کی تو ہین نہیں ہوسکتی، جبکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری امریکہ تک لئے فوائد اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پا کستان نے کئی اہم کام کرکے اپنی طاقت کو منوایا ہے، اپنی اہمیت کا احساس دلایا ہے، پاک چین اقتصادی راہداری کے فوائد میں سے پاکستان اپنے دوست اور برادر ملکوں کو حصہ دینا چاہتا ہے۔ ترکی اگرچہ اِس راہداری سے فی الحال اس طرح نہیں جڑ سکتا جیسا کہ سینٹرل ایشیائی ممالک، تاہم اُس کو دوستوں کی ضرورت ہے اور اِس اقتصادی تعاون تنظیم کے ممالک ترکی کے راستے بھی تجارت کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ اس طرح ان ممالک کو تین راہداریاں میسر آگئی ہیں، ایک ایران کے راستے، دوسرا پاکستان کے اور تیسرے ترکی کے راستے اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی حمایت حاصل ہوگئی مگر جو بات سب میں قدر مشترک ہے وہ ہے ثقافتی ورثہ، صدیوں کے بعد یکجا ہونا اور اقبال، سعدی، رومی، البیرونی، فارابی کےقدردان ممالک جو اسلام آباد میں یکم مارچ کو جمع ہوئے وہ سب کے سب اُن کے علم و فعل سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں۔ ان کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو سنوارتے ہیں اور اب وہ یکجا ہو کر معاشی طاقت بننا چاہتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں بلکہ مل کر اِس کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے تو یقیناً کامیابی اُن کے قدم چومے گی اور دُنیا ایک دفعہ پھر سینٹرل ایشیا کی مرکزیت کو تسلیم کرنے پر خوشی محسوس کرے گی اور سینٹرل ایشیا میں نہ صرف پاکستان شامل ہے بلکہ وہ آخری ملک ہونے کی بنا پر اس ترقی کا دروازہ بھی ہے۔

.
تازہ ترین