• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے بلڈنگ کوڈ آف پاکستان 2016ء کی آتشزدگی بچائو سے متعلق دفعات کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ ’’ مختلف شعبوں میں کام چوری کی عادت پڑ چکی ہے۔ واٹر اینڈ پاور کے جو ذمہ داران ہیں اُنکو تجویز دی تھی کہ کرپٹ لوگ ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ ہیں اُن کو تبدیل کیا جائے، لیکن عملدرآمد مجھے نظر نہیں آیا۔ اس سے زیادہ گمبھیر صورتحال کیاہوگی کہ ان کمپنیوں کے اہل کاربعض صارفین سے ملی بھگت کر کے بجلی چوری کراتے ہیں اور بدقسمتی ہے کہ عشروں سے ریاستی اختیارات اور مناصب پر بالعموم وہ طبقات قابض چلے آرہے ہیں جن کے نزدیک اخلاقی اقدار کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں بلکہ دنیا کی دولت اور لامحدود عیش وعشرت کی زندگی ہی انکا مطلوب و مقصود ہے۔‘‘ یہ الفاظ کسی عام آدمی کے ہوتے یا کسی پارٹی لیڈر کے تو ان کو یہ کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا کہ کسی تعصب کی بناپر کہا جارہا ہے، مگر یہ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کے ہیں جو ہیڈ آف دی اسٹیٹ ہیں، جنکا کوئی ذاتی مفادنہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدر مملکت کے ان الفاظ کا کوئی وزن بھی ہے، کیا یہ الفاظ بھی اُسی طرح بے وزن رہیں گے جو انہوں نے14مئی 2016ء کو کوٹری ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہے تھے کہ ’’پاناما لیکس کا معاملہ قدرت کی طرف سے اُٹھا ہے، اب بڑے بڑے لوگ پکڑے جائینگے، جو جتنا بڑا کرپٹ ہوتا ہے اس کے چہرے پر اتنی ہی نحوست ہوتی ہے۔ انکے پاناما لیکس کی پکڑ میں آنے کا کوئی واقعہ دو ماہ بعد کوئی چار ماہ بعداور کوئی ایک سال بعد ہوگا، اللہ کا نظام ہے، بدعنوان لوگ اب اللہ کی پکڑ میں آنیوالے ہیں اور پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے بھر پور امکانات پیدا ہو رہے ہیں ‘‘۔ہم دُعا کر سکتے ہیں کہ اللہ اُنکی زبان مبارک کرے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ صدر مملکت نے کہا ہے کہ عشروں سے وہی طبقات اختیارات اور مناصب پر قابض ہیں جنکے نزدیک اخلاقی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں، جہاںاخلاقی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہو وہاں مناصب پر بیٹھے اچھے لوگوں کی نہ کوئی حیثیت ہوتی ہے اور نہ ہی عام آدمی کو انصاف مل سکتا ہے، پہلے عوام اپنے مسائل پر خود ہی رُوپیٹ کر چُپ ہو جاتے تھے اب حوصلہ پکڑتے ہوئے آپ کو اپنے دُکھ درد بتا دیں گے، گو انہیںاتنا شعور ہے کہ جس ملک کا صدر اتنا بے بس ہو وہ عوام کیلئے کیا کر سکتاہے۔ اسکے باوجود عوام آپکو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حکمرانوں کے نزدیک اقتدار کو بچانا اور اپنی کرپشن کی رکھوالی کیلئے قطری خطوط پیدا کرنا سب سے بڑی ترجیح ہوسکتی ہے لیکن اُنکے کان نہ یہ سننے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی دیکھنے کیلئے آنکھیں ہیں کہ پاکستان کی 50فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اس میں 80فیصد آبادی ناقص خوراک کیوجہ سے مسائل کا شکار ہے جبکہ 44فیصد بچوں کی نشو ونما ناقص خوراک اور دودھ سے متاثر ہورہی ہے۔ لوگوں کو مضرصحت کھانوں، مردہ مرغیوں، حرام گوشت،دودھ کے نام پر یوریا کھاد،سرخ مرچوں میں اینٹوں کا برادہ،چائے کی پتی کے نام پر چنوں کے چھلکے، نہ جانے خوراک کے نام پر کیا کیا زہر کھلایا جارہا ہے اور انسانی زندگیوں سے یہ درندہ صفت افراد کھیل کھیل رہے ہیں، مگر حکمرانوں کے ایجنڈے میں عوام کی صحت اور خالص خوراک شامل ہی نہیں۔حالانکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ناقص خوراک کی وجہ سے سالانہ 7.6ارب ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے اور ہر سال ایک لاکھ 77ہزار بچے پانچویں سالگرہ سے پہلے مر جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 35فیصد شہریوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں، شہری سیوریج ملا اور کھارا پانی پینے پرمجبور ہیں، گو نیشنل ڈرنکنگ واٹر پالیسی کے مطابق پانی، صفائی اور حفظان صحت سے متعلق بیماریوں کے باعث قومی خزانے پر ہر سال 112ارب روپے کا بوجھ پڑتا ہے جبکہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والا ادارہ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق منرل واٹر کے نام پر فروخت ہونیوالے اکثر برانڈ مضر صحت ہیں، انکے کم از کم ایک سو برانڈز کینسر، ہیپاٹائٹس اور السر سمیت دیگر امراض پھیلا رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پانی میں اگر آرسینک کی سطح، مقررکردہ معیار سے بڑھ جائے تو یہ اعصابی نظام جگر، گردوں کو تباہ کر سکتی ہے، جبکہ پوٹا شیم کی بڑھتی ہوئی مقدار گردوں،دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے امراض میں مبتلا کرسکتی ہے۔ پاکستان آبی وسائل کی تحقیقاتی کونسل کے مطابق 2013ء کے مقابلے میں 2016ء غیر معیاری پانی والی کمپنیوں میں 105فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے ملک بھر میں 2005ء میں صاف پانی فراہم کرنے کا منصوبہ شروع کیا، اس منصوبے کی مجموعی لاگت 25ارب روپے تھی اور ملک بھر میں 5ہزار آر اُو یو ایف پلانٹس لگانے تھے جن کا ٹھیکہ آٹھ کمپنیوں کو دیا گیا مگر دس سال گزرنے کے باوجود کوئی بھی کمپنی اپنا کام پورا نہ کرسکی۔ اربوں روپے کا یہ منصوبہ نیب کے 150میگا کرپشن کیسز میں سے ایک ہے جو اب سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔
پانی کے بعد خوراک میں دودھ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے، پاکستان دنیا میں قدرتی دودھ پیدا کرنیوالا چوتھا بڑا ملک ہے۔ لیکن افسوس کہ بعض ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں پاکستانی عوام کو دودھ کے نام پر زہر پلارہی ہیں۔ اس حوالے سے کافی عرصے سے کیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے جو رپورٹس وہاں جمع کرائی ہیں ان میں بھی انکشاف ہوا ہے کہ دودھ کے نام پر زہریلے کیمیکل ملا مصنوعی دودھ بکتا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پیکنگ اور کھلا دودھ انسانوں کے پینے کے قابل نہیں، دودھ میں فارمولین ملایا جاتا ہے جو مردہ جسم کو محفوظ کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ محکمہ لائیو اسٹاک کی رپورٹ کے مطابق لاہور اور گردو نواح میں روزانہ کی بنیاد پر بھینسوں کے دودھ کی کل مقدار 30لاکھ لیٹر ہے جبکہ صارفین میں کم وپیش 43لاکھ لیٹر دودھ کی طلب پوری کی جاتی ہے اور محکمہ لائیو سٹاک بھی سرپکڑ کر بیٹھ گیا ہے کہ 13لاکھ اضافی دودھ کہاں سے آتا ہے۔ یہ اضافی دودھ ایک مافیا فروخت کررہا ہے، محکمے نے اس دودھ کو فروخت کرنے والوں کو نامعلوم قرار دے کر قصہ ہی ختم کر دیا ہے۔ افسو سناک صورتحال یہ ہے کہ ملک میں معیاری لیبارٹری ہی موجود نہیں جو دودھ اور پانی کے معیار کو جانچ سکے۔ صدر مملکت !عوام کو معلوم ہے کہ عوام اور اُن کیلئے خالص خوراک نہ تو حکمرانوں کی ترجیع ہے اور نہ ہی کبھی اُن کو یہ میسر آسکتی ہے۔ حکمراںملاوٹ کرنے والوں کو چوراہوں پر لٹکانے کے نعر ے تو لگا تے ہیں مگرعملی صورت کبھی نہیں آتی کیونکہ ایک ’’مافیا‘‘ یہ کام کررہا ہے جو بہت با اثرہے۔ عوام تو حیران ہیں کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں حرام گوشت اور مضر صحت دودھ و پانی پر بڑی تنقید ہوتی ہے۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ غیر معیاری پانی، دودھ گھی اور خوراک بیچنے پر پابندی لگاتی ہے مگر یہ اُسی طرح کھلے عام فروخت ہورہی ہیں اور انسانی جانوں سے کھیلنے کا یہ عمل جاری ہے۔

.
تازہ ترین