• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ریکوڈک‘‘ کا لفظ کچھ عرصہ قبل تک ہر ایک کی زبان پر تھا۔ ’’ریکوڈک‘‘ بلوچستان کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ بلوچی زبان میں ’’ریکوڈک‘‘ کےمعنی ہیں:’’ریتیلی چوٹی‘‘۔ یہاں جو پہاڑ ہے اس میں سونے کے چھوٹے چھوٹے ذرات وافرا مقدار میں پائے گئے ہیں۔ سونے کے یہ ذرات آنکھوں کو خیرہ کردیتے ہیں۔ اسی طرح ریکوڈک کے علاقے میں تانبے کا بھی بڑا ذخیرہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تانبے کے ذخائر کا اندازہ 12 ملین ٹن سے زیادہ کا ہے۔ سونے کے ذخائر 20 ملین اونس سے زیادہ کے ہیں۔ ان کی قیمت کا تخمینہ125ارب ڈالر ہے۔ بلوچستان کے پہاڑ سونے، تانبے اور دیگر معدنیات سے بھرے پڑے ہیں۔ اگر صحیح طریقے سے استفادہ کیا جائے تو پورا ملک خوشحال ہوسکتا ہے۔ 1951ء میں سوئی گیس کی دریافت نے پاکستانی معیشت اور صنعت کو ترقی دی، پھر بلوچستان کے علاقے میں 1998ء میں ایٹمی دھماکے نے بلوچستان کے ضلع چاغی کو دنیا بھر میں روشناس کرایا اور پھر معدنی ذخائر کو تلاش کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ فی الوقت 6 کلاسیفائیڈ دھاتیں انتہائی مہارت کے ساتھ پروسس کی جارہی ہیں۔ 2001ء میں حکومت نے معدنیات کے بارے میں کچھ منصوبے تشکیل دئیے تھے۔ 11مئی 2006ء کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بلوچستان کے سونے کے بارے میں تحقیقی رپورٹ لکھی تھی۔ اس کے شائع ہونے کے بعد پوری دنیا کی نگاہیں بلوچستان کے پہاڑوں پر جم گئیں۔ اب آجائیں چنیوٹ کی طرف! مسائل و مصائب میں گھری پاکستانی قوم کیلئے چنیوٹ میں سونے، چاندی، لوہے اور تانبے سمیت قیمتی معدنی ذخائر دریافت کی خبرتہلکہ مچا چکی ہے۔ اگر تخمینوں کے مطابق قیمتی دھاتیں کسی قسم کی رکاوٹ یا مفادات کے کھیل کے بغیر نکالنے کا سلسلہ جاری رہا تو اس قوم کے دن پھرنے کے خواب جلد پورے ہوسکتے ہیں۔ چنیوٹ کے علاقے رجوعہ میں معدنی ذخائر کی دریافت کے حوالے سے 2015ء میں منعقدہ تقریب کی اہمیت کا اندازہ اس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی موجودگی سے لگایا جاسکتا ہے۔
ان رہنمائوں نے دریافت ہونے والے قیمتی ذخائر کا معائنہ کیا اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور چینی ادارے کے سربراہ نے بریفنگ دی تھی جس کے بعد وزیر اعظم نے قوم کو اس دریافت پر مبارکباد دیتے ہوئے کشکول توڑنے اور اس سے نجات حاصل کرنے کا عزم زیادہ شدت سے دہرایا تھا۔ اللہ نے قرآن میں کئی جگہ زمین میں ودیعت کردہ دولت کا ذکر فرماکر انسان کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اس دولت کو کھوجنے اور استعمال میں لانے کے طریقے دریافت کرے۔ اسی طرح سمندر میں موجود انگنت حیاتی اور غیرحیاتی دولت کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ پھر اس تمام دولت کے بارے میں یہ فرمایا ہے یہ سب اللہ نے انسان کیلئے ہی بنایا ہے اور اسے مسخر یعنی حاصل کرنا آسان بنادیا ہے۔ یہ حکم سب سے زیادہ مسلمانوں کےلئے تھا کہ وہ اس پر غور کرتے اور اس سے اپنے نظامِ حکومت اور اقتصادیات کا بندوبست کرتے، مگرافسوس قرآن کی یہ سرگوشیاں ہم سے زیادہ غیرمسلموں نے سنیں اور آج وہ انہیں ویلیو ایڈیشن کے بعد پوری دنیا کو مہنگے ترین ریٹس پر بیچ رہے ہیں۔ ہماری ناقدری، بے عملی اور تجاہل عارفانہ کے باوجود اس ربّ کریم کی جانب سے فیاضی کا معاملہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ایسے حالات میں جب مغربی طاقتوں نے ہمیں معاشی بدحالی سمیت داخلی و خارجی بحرانوں میں مبتلا کردیا ہے اور پاکستان کے ناکام ریاست ہونے نہ ہونے کے مفروضے گھڑے جارہے ہیں۔ ہندوستان آنکھیں دکھارہا ہے۔ سرحدی مسائل پر دھمکیاں دے رہا ہے۔ علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کیلئے کانفرنسیں ہورہی ہیں۔ بھارتی انٹیلی جنس کے لوگ مقامی پاکستانی لوگوں کو پیسے کے بل پر خریدنے کی کامیابی کا اظہار اپنے ویڈیو کلپس میں کرتے نظر آرہے ہیں۔ گویا ہماری مالی کمزوری ہمارے لئے سب سے بڑا نقص بن گئی تھی۔ ایسے میں اللہ نے اربوں کے خزانے ہماری جھولی میں ڈال کر ہمیں ایک موقع اور دیا ہے کہ مالی آزمائشوں کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں اور مغربی پالیسیوں کے آگے سر نہ جھکایا جائے۔ اللہ کی بات مانیں تو بلا شرائط بلکہ بلااستحقاق اربوں کی امداد چند لمحوں میں ممکن ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی نعمتوں کی بارشیں ہوسکتی ہیں، لیکن ضروری ہے کہ اسلام پر اپنی آرا کو نہ ٹھونسا جائے، بلکہ اسلامی تعلیمات پر عمل اور معاشرے میں اسلامی صفات کی ترویج کی کوشش جاری رکھی جائے۔ اس طرح مذہب کے نام پر اُٹھنے والےعملی فتنوں کی سرکوبی کے وقت بھی اس کا خیال رکھا جائے کہ اسلام اور اس کی حفاظت کرنے والوں کا امیج متاثر نہ ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں موجود کرپشن کی بیماری کو ختم کرنے کیلئے عملی اقدامات کریں۔ اگر یہ بیماری چلتی رہی تو یہ اربوں کی نعمت کرپشن کی چھلنی سے گزر کر بہت تھوڑی سی رہ جائے گی جو نہ عوام کی فلاح کا ذریعہ ہوسکے گی اور نہ ہی وطن عزیز کو اس سے خاطرخواہ فائدہ ہوسکے گا۔ذخائر کی دریافت کے بعد یہ ضروری تھا ان کے ٹھیکوں سمیت تمام امور میں شفافیت کو ملحوظ رکھا جائے اور قوم کے بہتر مستقبل کیلئے معاملات کو ایسے ہاتھوں میں دیا جائے جو اہلیت، دیانت اور کارکردگی کے تمام تقاضوں پر پورے اترتے ہوں۔
اس دوران حکومتیں بدلتی رہیں گی، اس لئے اس حوالے سے کوئی ایسی قانون سازی یا ضوابط طے کردئیے جائیں جن کی وجہ سے اگلی حکومتیں ایسے پروجیکٹ کو رول بیک یا ری شیڈول کرکے قومی اموال کے ضیاع کا باعث نہ بنیں۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ان معدنیات کی مقدار اور آئندہ کی ضروریات کاتخمینہ احتیاط سے کیا جائے۔ ذخائر کی مقدار اور معیار کے اندازے بھی پوری احتیاط سے لگائے جائیں کیونکہ ان اندازوں کی بنیاد پر ہی بعض حکومتی پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں۔ ماضی میں بلوچستان میں گیس کی دریافت کے وقت یہ اندازہ لگایا گیا تھا یہ گیس دو سو برس تک ملکی ضروریات کیلئے کافی ہوگی، مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان اندازوں میں آبادی میں اضافے سمیت بعض پہلوئوں کو پوری طرح مدنظر نہیں رکھا گیا۔ اسی طرح چنیوٹ کے علاقے سے معدنیات نکالنے کے منصوبے کے تمام فنی پہلوئوں اور مارکیٹنگ کے حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کی جانی چاہئے۔ اس کی بھی ضرورت ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں پہلے سے دریافت شدہ ذخائر پر کام کو تیز کیا جائے۔ غیرملکی طاقتوں کے مفادات کے بجائے تمام فیصلے ملکی مفاد کو سامنے رکھ کئے جائیں۔ خط استوا کے قریب پاکستان جس جغرافیائی پٹی پر واقع ہے، اس میں یقینا بڑے پیمانے پر معدنیات اور تیل و گیس کے امکان پائے جاتے ہیں، اس لئے ضروری ہے ہم آئی ایم ایف کے کشکول کو حقیقتاً توڑ دیں اور اللہ پر مکمل بھروسہ کرکے کام شروع کریں۔ ان عالمی مالیاتی اداروں کا بس چلے تو وہ ہمارے ملک کی ایک پالیسی بھی نہ چلنے دیں۔ دوستو ! اسلامی جمہوریہ پاکستان جغرافیائی، معروضی، معدنیاتی ہر لحاظ سے سونے کی چڑیا ہے، ہم سب پر لازم ہے کہ اس کی حفاظت کریں، اس کی قدر کریں، اس کے بکھرے ہوئے گیسو سنوارنے میں دامے درمے قدمے سخنے ہر اعتبار سے تعاون کریں۔

.
تازہ ترین