• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لیجیے، سپر لیگ کا فائنل بھی ہو گیا۔ اور خوب زور شور سے ہوا۔ اگرچہ اس کے لئے جنگی بنیادوں پر احتیاطی اور حفاظتی انتظام کئے گئے تھے، لیکن میچ ہوا۔ اور ایسا میچ ہوا کہ کھیل تو لاہور میں ہو رہا تھا، مگر پورا ملک اس میں شریک تھا۔ پاکستان کا کوئی بھی شہر یا قصبہ ایسا نہیں تھا جہاں یہ میچ دیکھنے کے لئے بڑی بڑی اسکرینیں نہ لگائی گئی ہوں۔ جاننے والے تو پہلے ہی جانتے تھے کہ اگر ہم کرنے پر آئیں تو کیا نہیں کر سکتے۔ اپنے عمران خاں نے اس خوشی کو پاگل پن کہہ کر خواہ مخواہ اپنی بھد اڑوائی۔ ورنہ وہ بھی خاموش رہتے تو ا ن کی عزت میں اضافہ ہی ہوتا۔ اچھے رہے شیخ رشید اور چودھری سرور کہ عمران خاں کی بات سننے کے بعد بھی وہ میچ دیکھنے آئے۔ بعد میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو بھی کچھ خیال آیا کہ انہیں بھی اپنے پشتون نوجوانوں، پشاور زلمی کا ساتھ دینا چاہئے۔ تو انہوں نے بھی اپنے چند وزیر لاہور بھیج دیئے۔ شاید آپ جانتے ہوں کہ’’زلمے‘‘ پشتو میں نوجوان کو کہتے ہیں۔ ’’زلمے‘‘ مفرد ہے اور ’’زلمی‘‘ جمع۔ خیر عمران خاں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ہر حالت میں حکومت کی مخالفت کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور پھر ان کا کرکٹ سے بھی بہت گہرا تعلق ہے، لیکن یہ آصف زرداری کو کیا ہوا تھا۔ کیا ان کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ بھی اس بحث میں کود پڑتے اور اس جشن کو ’’رسک‘‘ قرار دے دیتے؟ جی ہاں، اصل میں تو یہ جشن ہی تھا۔ کھیل تماشوں اور جشن کے لئے بھوکی اس قوم کے لئے یہ جشن ہی تو تھا۔ کہاں کہاں سے نہیں آئے تھے مرد، عورتیں اور بچے یہ جشن دیکھنے۔ مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو لے کر آئی تھیں اس جشن میں۔ انہیں یہ بھی خوف نہیں تھا کہ وہاں دھکم پیل بھی ہو سکتی ہے کہ اس قسم کے کھیلوں اور جشنوں میں دھکم دھکا ہوئی جاتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے اپنی فوج اور پولیس کا۔ ایسا بہترین انتظام تھا کہ کسی جگہ اور کسی بھی موقع پر کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔
میچ شروع ہونے پہلے جہاں فوجی جوانوں نے پیرا ٹروپنگ کا مظاہرہ کیا وہاں ہمارے گانے والوں نے بھی تماشائیوں کے دلوں کو گرمائے رکھا۔ اس سے تماشائیوں کے جوش وخروش میں اضافہ ہی ہوا۔ لیکن ایک بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ وہاں جو مرد اور عورتیں ناچ رہی تھیں ان کا لباس کس نے پسند کیا تھا؟ ان مردوں اور عورتوں نے ’’کرد قوم‘‘ والی ڈھیلی ڈھالی، رومالی لٹکتی شلواریں اور اونچے اونچے شلوکے پہن رکھے تھے۔ اور یہ شلوکے بھی غلط جگہ پہنے ہوئے تھے۔ نہ جسم کے اوپر نہ نیچے، صرف بیچ میں۔ شاید یہ بھی ہماری مجبوری ہے کہ اگر حکومت کسی کام میں شامل ہو تو ہم رقص کرنے والوں کو رقص کا صحیح لباس نہیں پہنا سکتے۔ اس وقت ماحول میں جو جوش و خروش تھا اس کی وجہ سے شاید اس طرف کسی کی توجہ نہ گئی ہو، لیکن باذوق نظروں کو یہ لباس اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ خیر، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، انہیں بھول جایئے۔ اب ہماری توجہ تو اس حقیقت کی طرف ہو نا چاہئے کہ بین الاقوامی کھیلوں کے لئے ہم نے ایک دروازہ کھول دیا ہے۔ ابھی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ صرف اس میچ کی وجہ سے بین لاقوامی کھلاڑی ہمارے ہاں آنا شروع ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ہم نے اپنی سپر لیگ شارجہ اور دبئی میں کرانے کے بجائے پاکستان کے شہروں میں ہی کرانا شروع کر دی تو وہ دن بھی جلد آ جائے گا جب باہر کے کھلاڑی بھی کسی خوف و خطر کے بغیر یہاں آنا شروع کر دیں گے۔ ظاہر ہے، شروع میں ان کے لئے سخت حفاظتی انتظام کرنا پڑیں گے مگر بعد میں اس کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ کسی نے بالکل صحیح کہا ہے کہ اگر تھوڑا سا بھی خیال رکھا جاتا تو سری لنکا کی ٹیم کے ساتھ بھی وہ سانحہ نہ ہوتا جس کی وجہ سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے ہی بند ہو گئے۔ اس کے لئے فوج کو تکلیف دینے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ یہ کام ہماری پولیس ہی کر سکتی ہے، اگر اس کی صحیح تربیت ہو، اور اسے موقع دیا جائے۔
اب جشن کی باتیں ہو ہی رہی ہیں اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ مرد، عورتیں اور بچے جس طرح ہجوم در ہجوم میچ دیکھنے آئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے لوگ کرکٹ کے کتنے متوالے ہیں۔ بجا، بالکل بجا۔ لیکن آپ اسے اس طرح بھی تو دیکھئے کہ یہی ہجوم رفیع پیر تھیٹر اور ادبی جشنوں میں بھی اسی جوش و خروش کے ساتھ پہنچتا ہے۔ یہ ہجوم بھوکا ہے تفریح اور کلچرل پرو گراموں کا، آپ نے یہ تمام پروگرام ان سے چھین لئے ہیں۔ رفیع پیر تھیٹر ہر سال جب فیسٹیول کرتا تھا تو یاد کیجئے اس کا ہر شو اور ہر پروگرام تماشائیوں سے اتنا بھرا ہوتا تھا کہ بہت سے لوگوں کو اندر جانے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ اس فیسٹیول میں دنیا بھر سے فنکار حصہ لیتے تھے۔ ساری دنیا میں ہمارا نام ہوتا تھا، یہی حال لٹریچر فیسٹیول کا ہے۔ اسے جگہ ہی نہیں ملتی۔ وہ مارے مارے پھرتے ہیں۔ اور دور کیوں جایئے ہمارے لئے تو پتنگیں اڑانا بھی جرم ہے۔ یہ جو بے ضرر سا کھیل تھا، وہ ایسا خطرناک بن گیا ہے کہ پتنگ اڑانے والوں کو گھروں میں گھس کر ایسا مارا جاتا ہے کہ ان کی جان تک چلی جاتی ہے۔ پھر کہتے ہیں وہ خود ہی مر گیا۔ رونا تو اس وقت آتا ہے جب دس دس بارہ بارہ سال کے بچے ہتھکڑیاں لگائے حوالات میں بند نظر آتے ہیں۔ معصوم بچے، وہ غریب بھی کیا کریں، ایک پتنگ اڑانا ہی تو رہ گیا ہے ان کے لئے۔ ا ٓج کل اسکولوں کے نام پر تعلیمی اداروں کا جو جنگل اگ آیا ہے ان میں کھیلوں کے میدان کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ پتنگوں کو’’ ہوّا‘‘ بنانے میں ہمارے اخباروں اور ٹی وی چینلز کا ہاتھ بھی ہے۔ کسی کے جسم پر ذرا بھی ڈور پھر جاتی ہے تو اس کی ایسی خبر بن جاتی ہے جیسے انسان قتل کر دیا گیا، کب سے شور مچایا جا رہا ہے کہ چور کو نہیں چور کی ماں کو پکڑو۔ دھاتی تار بنانے والوں اور فروخت کرنے والوں کو پکڑو۔ مگر انہیں کوئی نہیں پکڑتا، پتنگ اڑانے والے پکڑے جاتے ہیں۔ اگر کرکٹ میچ کو اتنی توجہ مل گئی تو کیا پتنگ اڑانے والوں کو تھوڑا سا تحفظ بھی فراہم نہیں کیا جا سکتا؟ ہم تو ترستے ہیں اس وقت کو جب ہر چھت سے بو کاٹا کی آوازیں آتی تھیں۔
گھر گھر دیگیں چڑھائی جاتی تھیں اور ہمارے بچے مفت کی پتنگیں اڑاتے تھے۔ کیونکہ رات کو ہماری چھت پر کٹی ہوئی پتنگیں اتنی اکٹھی ہو جاتی تھیں کہ انہیں خریدنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔ اس وقت تو ہم نہیں سنتے تھے کہ کسی کی گردن کٹ گئی۔ اور کوئی شدید زخمی ہو گیا۔ اگر کوئی چھت سے گر گیا تو یہ اس کا اپنا قصور ہوتا تھا پتنگ کا نہیں۔ پتنگیں اڑانا ہمارا جشن ہے۔ مسلمانوں کا جشن ہے۔ شہر کے شہر اور گائوں کے گائوں اس جشن میں شریک ہوتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ حکومت اور پتنگ بنانے والے مل کر کوئی ایسا انتظام کرلیں کہ ہمارا یہ کھویا ہوا اور خطرناک جرم قرار دیا ہوا جشن ہمیں واپس مل جائے؟ خیر، اس وقت تو ہمیں اپنی کرکٹ کی واپسی پر خوشی منانا چاہئے۔ کہتے ہیں، آئی سی سی، آسٹریلیا، انگلینڈ، سری لنکا اور بنگلہ دیش نے لاہور کا فائنل بڑی توجہ سے دیکھا ہے۔ اب ہمیں اپنی سپر لیگ کا فائنل ہی لاہور میں کرا کے خاموش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ اپنی سپر لیگ شارجہ اور دبئی سے پاکستان میں ہی لے آنا چاہئے۔ اب دروازہ کھل گیا ہے۔ اب سب ہی یہاں آئیں گے۔ اس کے لئے ہماری پوری قوم تو مبارک باد کی مستحق ہے ہی لیکن اصل مبارکباد کے مستحق ہیں نجم سیٹھی۔ یہ انہی کی کاوش اور انہی کی ضد ہے کہ فائنل میچ پاکستان آیا۔

.
تازہ ترین