• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانچ مارچ کو لاہور میں ہونے والے پی ایس ایل فائنل میں پشاور زلمی نے میدان مار لیا۔ اس جیت پر پوری پاکستانی قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔ ویسے زلمی کے چاہنے والے بھی زیادہ تھے۔ زلمی روزنامہ جنگ کی ٹیم تھی۔ جب اننگز کے اختتام پرزلمی نے 148رنز بنائے تو میں سمجھا کہ پشاور زلمی کے کھلاڑی ’’ٹنڈ‘‘سے ڈر گئے ہیں کیونکہ عام طور پر حج یا عمرے کے موقع پر سرمنڈوایا جاتا ہے مگر ڈ یرن سیمی نے فائنل کے روز صبح سویرے یہ اعلان فرما دیا کہ جیت کی صورت میں زلمی کے تمام کھلاڑیوں کو ’’ٹنڈ‘‘ کروانا ہوگی۔ کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ جاوید آفریدی کو بھی ٹنڈ کروانا پڑے گی۔ کوئٹہ کے ساتھ اسی دن ہاتھ ہوگیا تھا جس روز اس کے غیرملکی کھلاڑی چلے گئے تھے۔ کوئٹہ کی ٹیم کئی ماہر کھلاڑیوں کے بغیر کھیلی۔ زلمی بھی شاہد آفریدی کے بغیر کھیلی۔ خیر یہ جیت پورے پاکستان کی جیت تھی۔ پاکستانیوں نے قریباً پورا مہینہ کرکٹ کا لطف اٹھایا۔ فائنل میچ کو سیاستدانوں سمیت زندگی کے دوسرے شعبوں کے اہم افراد نے بڑے انہماک سے دیکھا۔ تمام تر احتیاط کے باوجود (ن) لیگ کو اس وقت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب بہت اونچی آواز میں ’’گونوازگو‘‘ کے نعرے لگنا شروع ہوگئے۔ پتہ نہیں یہ نعرے لگانے والے لوگ کیسے آگئے حالانکہ حکومتی پارٹی نے ہزاروں ٹکٹ پارٹی ورکروں میں بانٹے تھے یا تو وہ ٹکٹ بک گئے یا پھر کارکن ہاتھ کر گئے کیونکہ ایسے مراحل پر اپنے ناراض کارکن بھی بھرپور ناراضی کااظہار کرتے ہیں۔ ایک بات پر پوری قوم کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ 5مارچ کو لاہور کسی بھی قسم کے حادثے سے محفوظ رہا بلکہ اس روز پورا ملک ہی محفوظ رہا۔
کرکٹ کاسپر لیگ ختم ہوتے ہی آج سے سیاسی ٹاک شوز کی رونقیں بحال ہوجائیں گی۔ پاکستان کے لئے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا بھر کی آئی ٹی کمپنیوں کے عالمی مقابلے میں کئی کمپنیوں کو مات دے کر ایک پاکستانی کمپنی دنیا کی ٹاپ ٹین یعنی پہلی دس کمپنیوں میں شامل ہوگئی ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ہونے والے مقابلے میں دنیا کی پہلی دس کمپنیوں میں جگہ بنانے والی پاکستانی کمپنی ایک پاکستانی سیاستدان کے بیٹے کی ملکیت ہے۔ اس نوجوان کا نام سید خضرحیات ہے۔ یہ نوجوان مخدوم سید فیصل صالح حیات کا صاحبزادہ ہے۔فیصل صالح حیات متعدد مرتبہ وفاقی وزیر رہے ہیں اور آج کل سیاسی مستقبل کے پل پر کھڑے ہیں۔
گزشتہ روز میرا جگری دوست بودی شاہ بڑے دنوں کے بعد آیا تھا۔ بودی شاہ کی باتوں کو سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر آپ بودی شاہ سے اصولوں کی بات کریں تو وہ ناراض ہو جاتا ہے اور بھری محفل میں کہتا ہے کہ میں تو اب اپنی عادات تبدیل نہیں کرسکتا۔ تمہارا شیڈول جو مرضی ہو، تم لوگوں کومیرے مطابق چلنا ہوگا۔ کل جب وہ میرے پاس آئے تو ڈیرے پر ہجوم تھا۔ میں نے ہجوم کو اِدھر اُدھر کیا اور بودی شاہ کے لئے صدارتی کرسی خالی کردی۔ کچھ لوگوں کو اشارہ کیا کہ اگر جلال سے بچنا ہے تو تمہارے حق میں بہتر ہے کھسک جائو۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ کیا پئیں گے؟ یا کچھ کھائیں گے؟ میرے اس جملے کا برا مناتے ہوئے بودی شاہ نے کہا..... ’’جو میری مرضی ہے میں کھائوں گااور جو میری مرضی ہوگی پیئوںگا۔ میرا اپناگھر ہے.....‘‘ میں نے بات بدلتے ہوئے عرض کیا کہ شاہ جی کوئی سیاسی گپ شپ سنائیں۔ سگریٹ سلگاتے ہوئے بودی شاہ بولا..... ’’سیاسی گپ کیا سنائوں، سیاست میں قلمی ہفتہ شروع ہونے والا ہے۔ بابوئوں میں لڑائی جاری ہے، سب کچھ صاف ہونے والا ہے، سیاسی حالات خراب ہو جائیں گے مگر پاکستان سدھر جائے گا.....‘‘
یہ باتیں کہہ کر بودی شاہ خاموش ہو گیا۔ میں نے تھوڑی دیرانتظار کیا کہ شاید وہ اب بولیں مگر بودی شاہ ایساچپ ہوا جیسے کوئی زبان پر تالا لگ گیا ہو۔ بالآخر سکوت توڑتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ ’’شاہ جی مجھے آپ صرف قلمی ہفتے کی وضاحت کردیں تاکہ ہم اہل قلم کوئی تیاری کرسکیں۔‘‘ بودی شاہ نے میری طرف غصے سے دیکھا اورپھر کہنے لگا..... ’’تم ساری عمر نالائق ہی رہو گے۔ قلمی ہفتے میں اہل قلم کہاں سے آگئے، اس قلمی ہفتے سے مراد ہے کہ ہفتے دس دن میں ایک اہم فیصلہ آنےوالا ہے اور یہ فیصلہ قلم سے لکھا جائے گا اور اس میں بہت کچھ قلم ہو جائے گا۔ کچھ لوگوں کی سیاست قلم ہو جائے گی، کچھ کو سروں کے قلم ہونے کی فکر لاحق ہو جائیگی کیونکہ انہی دنوں میں دو تین اہم انکوائریاں بھی ہو رہی ہیں۔ ان انکوائریوں کا نتیجہ بھی بڑا خطرناک آئے گا مگر جیسے ہی یہ فیصلے آئیں گے تو افراتفری کاموسم اتر آئے گا۔ پھر کوئی حساب لینے والا چلا جائے گا اور کوئی نیا حساب لینے والا آ جائے گا لیکن اس کا حساب بڑا سخت ہوگا۔ تم سمجھ رہے ہو گے کہ یہ آخری فیصلے ہوں گے، نہیں، بالکل نہیں، ابھی کچھ اور سنگین مقدمے کھلنے والے ہیں۔ کس نے کیا کھایا، کس نے کیالوٹا، کس نے وطن سے دشمنی کی؟ یہ سب آنے والے دنوں کی فلم میں شامل ہے، تم فیصل صالح حیات کو روک سکتے ہو تو روکو، جہاں وہ جارہا ہے اس کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ سندھ میں ڈھائی سو ایکڑ زمین کے علاوہ دو پٹرول پمپوں کا قصہ بھی چھڑنے والا ہے۔ جس میں ایک بڑے خاندان کے یتیم بچوں کی جائیداد اِدھر سے اُدھر کرنےکا کھیل بھی شامل ہے۔ آج کل بابو بھی ناراض ہیں۔ 94تو وہ ہیں جن کی پروموشن ’’سویلین فرشتوں‘‘ کے کہنے پر روک دی گئی ہے۔ چند بابوئوں نے عدالت کا رخ کرلیا ہے مگر محکموں میں لڑائی نہیں تھم رہی۔ وزارت ِ خارجہ میں ایک جونیئر افسر کو سیکرٹری بنانے پر سینئرز ناراض ہیں۔ انہوں نےجونیئر کے نیچے کام کرنے سے تقریباً انکار ہی کردیا ہے۔ وزارت ِ اطلاعات بھی اس سے ملتے جلتے مرض میں مبتلا ہے۔ اس وزارت کے سینئر افسران کو پروموشن کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا اور کشتی چلانے کے لئے بس کا ڈرائیور بھیج دیا گیا ہے۔ جب پانی کی لہریں تیز ہوں گی تو یہ کیا کرے گا کیونکہ اسے تو کشتی چلانا ہی نہیں آتی۔
 یوں سمجھ لیجئے کہ یہ اس ڈبے کا مسافر ہی نہیں جس ڈبے کی قیادت اسے دے دی گئی ہے.....‘‘
سچی بات تو یہ ہے کہ بودی شاہ کی باتیں سر سے گزر گئی ہیں۔ مجھے تو اس مرحلے پر صرف ایک نظم یاد آرہی ہے۔ یہ نظم ’’خواہش کی مسند‘‘ رخشندہ نوید نے کچھ عرصہ پہلے کہی تھی جو کچھ یوں ہے۔
شبِ قربت کے روشن چاند لمحوں میں
مرے سر سے اچانک چاہتوں کا نرم تکیہ کھینچ لیتا ہے
کبھی جب روٹھ جائے، تو سزا کیسی انوکھی ہے
مجھے خواہش کی مسند پر
وہ تنہا چھوڑ دیتا ہے
جو کرنیں خواب اوڑھے جاگتی رہتی ہیں
ان کو کانچ کے ٹکڑوں کی صورت توڑ دیتا ہے


.
تازہ ترین